فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ، وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ۔ (آل عمران:۱۵۹)
یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے لئے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں ، ورنہ اگر کہیں آپ تند خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب آپ کے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔
مطلب یہ ہے کہ دعوت اسلامی کی تیز رو کامیابی اور مقبولیت کا سہرا بفضلِ خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نرمی اور مزاج میں سرتاسر شفقت کے سربندھتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کے دل بے اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ کھنچتے اور آپؐ دلوں کو فتح نہ کرپاتے۔
بہر حال نرمی اور ملاطفت بہت ہی محمود اوصاف ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ شریعت میں اس کی بھی حدود مقرر ہیں ، جہاں دین کی توہین ہورہی ہو یا احکامِ دین کے اجراء کی ضرورت ہو، وہاں سختی اور سزا لازمی ہوجاتی ہے، اور ایسے مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا سخت ہوجاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں ، بقیہ عام حالات میں درشت خوئی اور غلظتِ قلب طبعی طور پر لوگوں کو بھگاتی، دور کرتی اور متنفر کرتی ہے۔
داعئ دین اور عالم ومبلغ کو خصوصاً بہت خوش خلق اور خندہ رو ہونا چاہئے، دین کی طرف لوگوں کا کشاں کشاں آنا اسی طرح ممکن ہے، جب کہ خشونت اور تنگدلی کا اظہار دعوت وتبلیغ کی راہ کا سب سے بڑا روڑا اور مانع ہے، ہر شب کو سحر کرنے کی کوشش اسی وقت کامیاب ہوگی جب وسعت ونرمی ہو اور درشتی وبیزاری کا نام ونشان تک نہ ہو، یہی تمام خیر کی اساس اور اصل ہے اور اس سے محروی بہت بڑا خسارہ ہے۔
اسلام کی ان اعلیٰ تعلیمات کو پیش کرنے کے بجائے اسے تشدد وظلم کا دین ظاہر کرنے