عقل کو آزادی ہے کہ وہ اللہ کے وجود اور وحدانیت میں غور کرے، دلائل انفس وآفاق کی مدد سے توحید اورقدرتِ الٰہی کو سمجھے، رسالت کی ضرورت کا احساس کرے، پیغمبروں کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے حقیقی معجزات اور شعبدہ بازوں کی مکاریوں کا فرق سمجھے، اصولِ شرع کو سمجھ کر فروع کا حکم جانے، اصولیات پرقیاس کرے، یسر، ضرورت، دفع حرج، عرف وعادت، حالات وظروف اور جلب منفعت ودفع مضرت کے اصول کی روشنی میں لائحۂ عمل طے کرلے، کسی امر کی قباحت یا حسن کا فیصلہ کرلے، حدیث میں ہے:
اِسْتَفَتْ قَلْبَکَ، اَلْبِرُّ مَا اَطْمَأَنَّتْ إِلَیْہِ النَّفْسُ وَالإِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ۔ (مسند احمد)
اپنے دل سے فتویٰ پوچھو، نیکی وہ ہے جس سے دل مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے۔
عقل کو اجازت ہے کہ ایجاد کرے، وسائل زندگی کی اختراع میں حصہ لے، ہاں حق وعدل کا دامن تھامے رہے، دوسروں کے تجربات کو مشعل راہ بنائے، عقل اگرسلیم ہے تو یہ سب کام اس سے ہوسکتا ہے بلکہ ہوا ہے، ہورہا ہے اور ہوگا، عقل کو اس کی مکمل آزادی ہے، اور یہ اسلام کے ربانی کے ساتھ انسانی مذہب ہونے کی کافی شافی دلیل ہے۔
اسلام کا سب سے بنیادی اولین مأخذ قرآن کریم ہے، قرآن کی آیات وموضوعات کا طائرانہ مطالعہ اس حقیقت کے ایقان کے لئے بالکل کافی ہے کہ یہ کتاب انسانیت ہے، پورا قرآن انسان سے مخاطب ہے یا انسان کے بارے میں مخاطب ہے {الإنسان} کا لفظ قرآن میں ۶۳؍ مقامات پر آیا ہے (الناس) کا لفظ ۲۴۰؍مرتبہ آیا ہے، پہلی وحی کی پانچ آیات میں دوبار ’’انسان‘‘کا لفظ ہے جس میں اشارہ ہے کہ انسان کا پہلا امتیازی وصف علم وتعلم ہے، سب سے پہلا حکم قرآنی انسان کے لئے {اقرأ} علم وتعلم ہے۔