مگر حقیقت ایمان سے محروم ہیں ، نظریاتی طور پر خود کو اللہ کا تابع ِفرمان کہتے ہیں ، مگر عملی لحاظ سے غیر اللہ کے فرمان کے پیرو بنے ہوئے ہیں ، وہ مال وجاہ اور اقتدار ومنصب کے حصول کے لیے اللہ کی پیروی چھوڑ بیٹھے ہیں ۔
اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی کمی یہی ہے کہ وہ حقیقتِ دین سے تہی دست ہیں ، مسلمانوں کے عروج اورزوال دونوں کا سبب یہی ہے کہ جب تک وہ حقیقت دین کی دولت سے مالا مال رہے وہ سربلند رہے، یہی شرط قرآن نے بھی بیان کی ہے کہ:
وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔
تم ہی سربلند رہوگے، اگر تم مؤمن کامل ہوگے۔
مگر پھر جب وہ حقیقتِ دین سے محروم ہوئے اور ظواہر اور تصنعات میں مبتلا ہوگئے تو وہ پست وبے حیثیت ہوگئے، حقیقتِ دین سے مالا مال شخص اللہ اور بندوں سب سے تعلق رکھتا ہے اور تعلق کی بنیاد خلوص پر استوار کرتا ہے، جب کہ حقیقت دین سے محروم آدمی مطلب پرستی اور خود غرضی کی بنیادوں پر تعلق استوار کرتا ہے، دوسری کمی یہ ہے کہ عقیدہ عمل سے ہم آہنگ نہیں ہے، اور ضرورت اس کی ہے کہ عقیدہ عمل سے ہم آہنگ ہو، تبھی اس کی کرنیں اپنی روشنی پھیلائیں گی اور اپنی ضیاء پاشیوں سے سب کو منور کرسکیں گی۔