وہ اول بھی ہے اور آخر بھی، ازلی بھی ہے، اور ابدی بھی، ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی ہے، سب اس کے محتاج وتابع فرمان ہیں ، وہ سب کا حاجت روا اور حاکم مطلق ہے۔ عقیدۂ توحید کی نعمت امت محمدیہ کو اس کے پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے ملی ہے، اس سے زیادہ انقلاب انگیز،حیات بخش، عہد آفریں اور معجز نما عقیدہ دنیا کو نہ پہلے کبھی ملا ہے اور نہ قیامت تک کبھی مل سکتا ہے۔ یہ ایسا خالص بے آمیز، سہل الفہم عقیدہ ہے جس نے انسان کی دنیا بدلی ہے، اسے ہر قسم کی غلامی اور عبودیت اور خوف وانتشار سے محفوظ رکھا ہے، پھر یہ عقیدہ اپنے ہر پیرو سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے رب برتر سے اپنا ربط مستحکم کرلے، اپنے تمام معاملات میں اس کے حکم کا تابع بن جائے، ہر مرحلہ پر اسی سے ہدایت طلب کرے، اپنی انفرادی واجتماعی زندگی اسی کی تعلیم کے مطابق گزارے، اسے سب سے زیادہ محبت بھی اللہ ہی سے ہو اور سب سے زیادہ خوف بھی اُسی کا ہو، وہ اس حقیقت پر یقین رکھے کہ اس ناپائیدار عارضی وفانی زندگی میں جس اور جتنے بھی خیر وشر کا صدور اس سے ہوگا سب کا نتیجہ وبدلہ آخرت کا پائیدار اور اصل باقی رہنے والی جاودانی زندگی میں اسے بہر حال مل کر رہے گا۔
جب انسان عقیدۂ توحید اور اس کے مطالبات کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے تو پھر وہ نہ کسی کو حقیر سمجھتا ہے، نہ کسی کی توہین کرتا ہے، کیونکہ وہ ہر ایک کو ایک ہی خدا کی مخلوق اور اپنا مساوی باورکرتا ہے، اس میں رحم دلی، تواضع، عدل وامانت کے تمام اوصاف راسخ ہوجاتے ہیں ، وہ اپنی اور پوری امت کی صلاح وفلاح کے لئے کوشاں ہوجاتا ہے، اور اپنی عقل کو اور تمام توانائیوں کو صحیح مصرف میں صرف کرتا ہے، لیکن جب اس عقیدہ کے لحاظ سے انسان میں کمزوری آتی ہے تو پھر وہ ہر قسم کے بگاڑ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
اس وقت ہم میں سے اکثر افراد ضعف عقیدہ کا شکار ہیں ، وہ نظریاتی طورپر مؤمن ضرور ہیں مگر عملی لحاظ سے وہ کفر ونفاق کی راہ پر چل رہے ہیں ، وہ صورتِ ایمان تو رکھتے ہیں