ہوتے تھے، وہ وعدے کے پکے اور بات کے سچے تھے، چاہے مسجد میں ہوں یا بازار میں ، حضر میں ہوں یا سفر میں ، دوست کے ساتھ ہوں یا دشمن کے، ا ن کا یہی رویہ رہتا تھا۔
پھر جب جہاد کا منادی پکارتا ہے تو یہ منظر سامنے آتا ہے کہ تاجر اپنی دکان بند کرکے، کاشتکار اپنا ہل پھینک کر اور کاریگر اپنے اوزار رکھ کر اور مزدور اپنے ڈول کی رسی چھوڑ کر بے چون وچرا جہاد میں نکل پڑتے ہیں ، پھر وہ ملکوں ملکوں سفر کرتے ہیں ، اونٹوں کی پشتوں پر سوار وہ چلتے رہتے ہیں ، کثرت سفر سے ایسا لگتا ہے جیسے اونٹوں کی پشتوں پر وہ پیدا ہی ہوئے ہیں ، وہ روز وشب دعوت دین کا کام انجام دیتے رہتے ہیں ، جہاں جاتے اور فروکش ہوتے ہیں چلتے پھرتے مدرسے ہوتے ہیں ، اس طرح وہ دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اور مشرق سے تابمغرب دین حق کی روشنی پھیلادیتے ہیں اورحق کی صدا لگادیتے ہیں ۔ (إلی ممثلی البلاد الإسلامیۃ (مختصراً مع ترجمہ) از مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ)
گویا بقول شاعر ؎
مشرق سے تا بمغرب گونجی اذاں ہماری
رکتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
صحابہ کے اس ذکر جمیل سے اسلام کی جامعیت اور کاملیت کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔