ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ (النمل/۶۴)
کوئی دلیل لاؤ اگرتم سچے ہو۔
توحید ہر مسلمان کے قلب وفکر اور ضمیر وشعورکا واضح نمایاں عقیدہ ہے، اس کی فکر میں یہ عقیدہ اپنی وضاحت وبداہت کی وجہ سے رچا بسا ہوتا ہے اور اس کی زندگی میں اس کے اثرات روشن نظر آتے ہیں ۔
دوسرا عقیدہ آخرت کی سزا، دنیا کے فنا ہونے اور دارالامتحان اور وقتی قیام گاہ ہونے اوردار آخرت کے ابدی وسرمدی ہونے اور وہاں ہر عمل کا پورے انصاف کے ساتھ حساب ہونے اور بدلہ ملنے کا ہے، ساتھ ہی جنت اور اس کی نعمتوں ، جہنم اور اس کے عذاب کی حقانیت کا بھی عقیدہ ہے، یہ عقیدہ بھی اتنا واضح ہے کہ صاحب عقل بآسانی اسے سمجھ سکتا ہے، ظاہر ہے کہ کارخانۂ عالم عبث نہیں پیدا گیا ہے، بلکہ یہ ابتلا وامتحان کا مقام ہے، اورآخرت دار الجزاء ہے جہاں حساب ہونا ہے، یہ بہت ہی بدیہی اورواضح حقیقت ہے۔
تیسرا عقیدہ رسالت کا ہے، پیغمبر اللہ کی طرف سے اصلاحِ خلق کا مشن لے کر آتا ہے، اور اقامتِ عدل کا فرض انجام دیتا ہے، اہل عقل کے لئے اس کو سمجھنا بہت واضح ہے کہ تعلیمِ دین کے لئے معلم ضروری ہے اور معلم انبیاء ہی ہوتے ہیں ، جو اللہ کا پیغام پہونچاتے ہیں ۔
عقائد کے بعد عبادات کا درجہ ہے، تمام عبادات بالکل واضح ہیں ، ہر عام وخاص مسلمان واقف ہے، کہ :
بُنِیَ الاِسْلاَمُ عَلَیْ خَمْسٍ: شَہَادَۃِ أَنْ لَا اِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ وَإِقَامِ الصَّـــلاۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمَ رَمْضَانَ۔ (متفق علیہ)