تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
کے بعد بھی اگر وہ کسی غلط ڈاکٹر یا حکیم کے جال میں پھنس گیا یا اس نے کوئی غلطی کردی تو عقلاء کے نزدیک وہ قابل ملامت نہیں ہوتا لیکن جو شخص بلا تحقیق کسی عطائی کے جال میں جا پھنسا اور پھر کسی مصیبت میں گرفتار ہوا تو وہ عقلاء کے نزدیک خود اپنی خود کشی کا ذمہ دار ہے۔ یہی حال عوام کے لیے دینی امور کے بارے میں ہے کہ اگر انہوں نے اپنی بستی کے اہل علم و فن اور تجربہ کار لوگوں سے تحقیق حال کرنے کے بعد کسی عالم کو اپنا مقتدیٰ بنایا اور اس کے فتویٰ پر عمل کیا تو وہ عندالناس بھی معذور سمجھا جائے گااور عند اللہ بھی۔ ایسے ہی معاملہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے فان اثمہ علی من افتی یعنی ایسی صورت میں اگر عالم اور مفتی نے غلطی کرلی اور کسی مسلمان نے ان کے غلط فتوے پر عمل کرلیا تو اس کا گناہ اس پر نہیں بلکہ اس عالم اور مفتی پر ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ اس عالم نے جان بوجھ کر ایسی غلطی کی ہو، یا امکانی غور و خوض میں کمی کی ہو، یا یہ کہ وہ عالم ہی نہ تھا اور لوگوں کو فریب دے کر اس منصب پر مسلط ہوگیا۔ لیکن اگر کوئی شخص بلا تحقیق محض اپنے خیال سے کسی کو عالم یا مقتداء قرار دے کر اس کے قول پرعمل کرے اور وہ فی الواقع اس کا اہل نہیں تو اس کا وبال تنہا اس مفتی و عالم پر نہیں ہے بلکہ یہ شخص بھی برابر کا مجرم ہے جس نے تحقیق کئے بغیر اپنے ایمان کی باگ ڈور کسی ایسے شخص کے حوالے کردی ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ ارشاد خداوندی ہے:سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ، یعنی یہ لوگ جھوٹی باتیں سننے کے عادی ہیں ، اپنے مقتداؤں کے علم و عمل اور امانت و دیانت کی تحقیق کئے بغیر ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور ان سے موضوع اور غلط روایات سننے اور ماننے کے عادی ہوگئے ہیں ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ معارف القرآن، سورۂ مائدہ ۳؍۱۴۹۔