تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
یہاں فقہاء نے صرف اتنا نہیں فرمایا کہ باپ اولاد کا بدخواہ ہو بلکہ یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اس بدخواہی میں معروف ہو، لہٰذا لفظ ’’معروف‘‘ کے قانونی مقتضیات پر عمل تو ضروری ہے لیکن جو حضرات ان قانونی مقتضیات کو متعین کرنے میں لفظ کے ٹھیٹھ منطقی لوازم پرزور دیتے ہیں انہوں نے اس لفظ سے یہ نتیجہ نکالا کہ کسی شخص کو ’’معروف بسوء الاختیار‘‘ یعنی اولاد کی بد خواہی میں معروف اسی وقت کہا جائے گا جب اس نے کم از کم ایک مرتبہ اپنی کسی اولاد کا نکاح صرف لالچ کی بناء پر کردیا ہو اور جس شخص نے اب تک اپنی کسی لڑکی کا نکاح اس طرح نہ کیا ہو وہ معروف بسوء الاختیار نہیں کہلاسکتا۔ لہٰذا اگر کوئی باپ پہلی بار اپنی لڑکی کا نکاح لالچ سے کررہا ہو تو وہ سیِّ ء ُالاختیار تو ہے لیکن معروف بسوء الاختیار نہیں ہے اس لیے اس کی لڑکی کو خیار بلوغ حاصل نہیں ہوگا۔ ہاں اگر وہ اس کے بعد دوسری لڑکی کا نکاح اسی طرح کرے تو چونکہ اب وہ معروف بسوء الاختیار بن گیا ہے اس لیے دوسری لڑکی کو خیار بلوغ مل جائے گا۔ لیکن حضرت والد صاحبؒ نے جواہرالفقہ کے ایک رسالہ میں اس نقطۂ نظر سے اختلاف فرمایا ہے، ان کا موقف یہ ہے کہ ’’معروف بسوء الاختیار‘‘ کی یہ منطقی تعبیر کہ جب تک کسی لڑکی کی کم از کم ایک بہن باپ کی بدخواہی کی بھینٹ نہ چڑھ چکی ہو اس وقت تک اسے خیار بلوغ حاصل نہ ہو، اس سیاق کے بالکل خلاف ہے جس میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ سیاق یہ ہے کہ اولاد کا خیار بلوغ باپ کی مظنونہ شفقت کے مد نظر ساقط کیا گیاتھا لیکن جب سوء اختیار سے اس شفقت کا فقدان ثابت ہوگیا تو خیار بلوغ لوٹ آئے گا۔ اس موقع پرفقہاء نے معروف بسوء الاختیار اس لیے استعمال کیا ہے کہ سوء اختیار کا فیصلہ کسی کی شخصی رائے سے نہیں ہونا چاہئے بلکہ باپ کی بد خواہی اتنی واضح ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں میں اس حیثیت سے معروف ہو۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص۴۲۱ تا ۴۲۳۔