ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2017 |
اكستان |
|
(٢) مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد مہاجرین میں جن کی وفات سب سے پہلے ہوئی وہ حضرت عثمان بن مظعون ہیں ، جب اِن کو دفن کر دیا گیا تو آنحضرت ۖ نے ایک صاحب کو ایک پتھر اُٹھا کر لانے کے لیے فرمایا، وہ پتھر اتنا بھاری تھا کہ یہ صاحب نہیں اُٹھا سکے، آنحضرت ۖ خود پہنچے آستینیں چڑھائیں اور وہ پتھر اُٹھا کر لے آئے اور قبر کے سر ہانے رکھ دیا کہ اِس سے میں اپنے بھائی کی قبر معلوم کر سکوں گا اور میرے متعلقین میں سے جو وفات پائے گا اُس کو اِس کے پاس دفن کر سکوں گا۔ ١ (٣) آنحضرت ۖ جب میت کو قبر میں اُتارتے تھے تو پڑھا کرتے تھے :بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۔ ٢ (٤) آنحضرت ۖ نے اپنے گوشہ جگر حضرت ابراہیم کو دفن کیا تو مٹی کے تین دوہتڑ (دونوں ہاتھ) بھر کر قبر میں ڈالے پھر قبر پر پانی کاچھڑکاؤ کرایا اور کنکریں ڈال دیں ٣ مٹی کے تین دوہتڑ سراہنے کی طرف ڈالے ٤ پانی کا چھڑکاؤ سراہنے سے شروع کیا اور پیروں تک لے گئے۔ ٥ (٥) پہلا دوہتڑ ڈالا جائے تو پڑھا جائےمِنْھَاخَلَقْنٰکُمْ دوسرے پروَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ اور تیسرے پروَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی ۔ (٦) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے (قاسم بن محمد بن ابی بکر) جو اپنے زمانہ میں مدینہ منورہ کے مفتی اعظم اور بہت مقدس بزرگ تھے انہوں نے اپنی پھوپھی (اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے در خواست کی کہ وہ حجرہ شریفہ کھول کر مزارات کی زیارت کرادیں، حضرت قاسم فرماتے ہیں میں نے حجرہ شریف میں مزار دیکھے نہ اُونچے اُٹھے ہوئے تھے نہ زمین سے ملے ہوئے، سرخ کنکریاں جو مقام ''عرصہ'' کے میدان کی تھیں اُن پر پڑی ہوئی تھیں ٦ حضرت سفیان تمَّار کا بیان ہے کہ انہوں نے قبر مبارک کی زیارت کی تو وہ کوہان کی طرح تھی ٧ قبرکی اُونچائی ایک بالشت سے زیادہ نہ ہونی چاہیے۔ ٨ ------------------------------١ ابو داؤد شریف ص ١٠١ ٢ صحاح ٣ مشکوة شریف و بیہقی ٤ مشکوة و ابن ماجہ ٥ مشکوة و بیہقی ٦ ابو داؤد شریف ٧ بخاری شریف ص ١٨٦ ٨ قاضی خان مع عالمگیریہ ج ١ ص ١٧٨