راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
خاكِ پایش بِہ ز شیرانِ عظیم اس کے پیر کی خاک میرے نزدیک بڑے بڑے شیروں سے افضل ہے۔ لیکن یہ عاشق کے نزدیک ہے، منافق کے نزدیک نہیں ہے، فاسق کے نزدیک نہیں ہے۔ اللہ کے کعبہ کا ایک ایک ذرّہ محترم ہے، مدینۂ پاک کی گلیوں کا ایک ایک ذرّہ محترم ہے، لیکن کس کے لیے؟ جو اللہ اور رسول کے عاشق ہیں لیکن کافر، مشرک، یہودی اور منافق اس بات کو کیا جانیں، انہیں کیا پتا کہ یہاں کیا چیز ہے؟ مولانا رومی کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ ہمیں اللہ والوں کی محبت، بیت اللہ کی محبت، مدینۂ پاک کی محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، شیخ کی محبت اور استاد کا ادب سکھارہے ہیں کہ دیکھو اپنے بڑوں کا ایسا ادب کرنا چاہیے۔ اب سوچ لو کہ ہمیں اپنے مولیٰ سے کیسی محبت ہونی چاہیے۔ مولیٰ کی محبت کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ لیلیٰ کی محبت سے سمجھارہے ہیں، مردہ سے زندہ حقیقی تک لے جارہے ہیں، مجاز سے حقیقت کی طرف لے جارہے ہیں،یہ مولانا رومی ہی کا کمال ہے، وہ مثالوں کے بادشاہ ہیں۔ جیسے چھوٹے بچے کو لڈو دے کر مدرسہ بھیجا جاتا ہے۔ آپ بتائیے کہ مدرسے کا علم اور لڈو کی قیمت برابر ہے؟ آٹھ آنے کی ایک ٹافی دی جائے کہ نورانی قاعدہ پڑھ کر آجاؤ تو کیا ایک ٹافی اور قاعدہ کا علم برابر ہوجائے گا؟ یہ مولانا رومی کا کمال ہے کہ حسنِ لیلیٰ کو پیش کرکے مولیٰ سے ملاتے ہیں،حسنِ لیلیٰ کی ٹافی دکھا کر لذتِ وصلِ مولیٰ دِلاتے ہیں کیوں کہ جانتے ہیں کہ آج کل کے لوگ رومانٹک قسم کے ہیں، بحراٹلانٹک میں غرق ہیں اس لیے ان کو نکالنے کے لیے ٹافیاں دکھاتے ہیں لیکن جب مولیٰ سے ملادیتے ہیں تو پھر لیلاؤں کے حسن سے نفرت ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوجاتی ہے۔ مجنوں کی دوسری حکایت سے ذکر اللہ اورعشقِ مولیٰ کا سبق مولانا فرماتے ہیں کہ ایک دن مجنوں دریا کے کنارے ریت پر اپنی انگلیوں سے لیلیٰ لیلیٰ لکھ رہا تھا۔ ایک مسافر وہاں سے گزر رہا تھا، جب اس نے دیکھا کہ یہ پاگلوں کی طرح کچھ لکھ رہا ہےتو اس نے پوچھا کہ ؎ گفت اے مجنونِ شیدا چیست ایں