راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
کیا کہتا یہ تو مولانا رومی کا علم ہے، اشعار تو ان ہی کے ہیں مگر سمجھانے کے لیے اپنے مضمون کو کسی سے منسوب کردیتے ہیں چناں چہ اپنا یہ عارفانہ کلام، اپنی معرفت کی باتیں مجنوں کی طرف منسوب کر کے بیان کررہے ہیں اور ہمیں اور آپ کو محبت سِکھارہے ہیں کہ مدینہ پاک کی محبت، مکہ شریف کی محبت، شیخ کی محبت، شیخ کے گھر والوں کی محبت، شیخ کے شہر کی محبت ہم اور آپ کس طرح سے سیکھیں۔تو مجنوں کا نام لے کر فرماتے ہیں کہ ایک دن مجنوں کہہ رہا تھا ؎ آں سگے کو گشت در کویش مقیم جو کتّا میری لیلیٰ کی گلی میں مقیم ہے، مقیم معنیٰ ٹھہرنے والا ، مسافر اور مقیم میں فرق ہوتا ہے، تو جو کتّا میرے محبوب کی گلی میں اقامت رکھتا ہےوہ قیامت کی قامت رکھتا ہے، کیوں کہ ؎ خاكِ پایش بِہ ز شیرانِ عظیم اس کے پیر کی خاک میرے نزدیک بڑے بڑے شیروں سے افضل ہے ؎ آں سگے کو باشد اندر کوئے او من بہ شیراں کے دہم یک موئے او وہ کتا جو میرے محبوب کی گلی میں رہتا ہے میں شیروں کو اس کتے کا ایک بال بھی نہیں دے سکتا۔ تو کتے کو ایسی کیا نسبت ہے؟ بس یہ نسبت ہے کہ وہ اس کی لیلیٰ کی گلی کا رہنے والا ہے۔کیوں صاحب! یہ بتائیے کہ اگر ایک کتّے کے گلے میں پٹہ ڈلا ہو کہ یہ وزیراعظم کا کتا ہے اور وہ آپ کی گلی میں آجائےاور گھبرا کرآپ کے گھر میں گھس جائے تو کیا آپ کی ہمت ہوگی اسے مارنے کی؟ وزیراعظم کے خوف سے کوئی اس کتے کو کچھ نہیں کہے گا اور وزیراعظم کا خوف ہے محبت نہیں ہے، مولانا فرماتے ہیں کہ مجنوں کے لیے لیلیٰ بھی وزیراعظم سے کم نہیں لہٰذا محبت میں عاشق کو اپنا محبوب وزیراعظم سے کم معلوم نہیں ہوتا۔ تو مولانا رومی نسبت کی بات کررہے ہیں کہ دیکھو اس مجنوں سے محبت سیکھو کہ وہ ظالم ایک کتّے کے بارے میں کہہ رہا ہے ؎ آں سگے کو گشت در کویش مقیم جو کتّا میری لیلیٰ کی گلی میں رہتا ہے، جو کتا میری لیلیٰ کی گلی کا مقیم ہے ؎