راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
چہرہ لال ہوجاتا ہے، خوب ڈانٹ لگاتے ہیں۔ تو قرار صاحب نے جواب دیا کہ میرا نفس بھی تو اڑیَل ہے، اڑیَل نفس کے لیے کڑیَل پیر ہوتا ہے۔ تجربہ یہی ہے کہ جس کا شیخ کڑوا ہو اور خوب ڈانٹ ڈپٹ کرے اس کے نفس کی زیادہ اصلاح ہوتی ہے اِلَّا یہ کہ کوئی بزرگ صاحبِ کرامت ہوں جو اپنے اخلاق و شفقت سے اور روحانیت سے منزل تک پہنچادیں، جیسے کہ حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ڈانٹتے نہیں تھے۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ ڈانٹنا اور خفا ہونا تو جانتے ہی نہ تھے، سراپا رحمت تھے لیکن ان کی صحبت کے فیض سے کوئی محروم نہیں رہتا تھا۔ ایسے اولیاء اللہ بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن عام حالات یہ ہیں کہ بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے اصلاح نہیں ہوتی۔ اولیاء اللہ کا ادب اللہ تعالیٰ کی نسبت کی وجہ سے ہے تو میں عرض کررہا تھا کہ اللہ کی نسبت سے عظمتیں آتی ہیں، بیت اللہ کی زمین پر ایک نماز ایک لاکھ نماز کے برابر کیوں ہے؟ خدا کی یہی زمین یہاں بھی تو ہے، یہ مسجد بھی تو اللہ کا گھر ہے لیکن جس زمین کو خانہ کعبہ سے نسبت ہو صرف اسی کو بیت اللہ کہہ سکتے ہیں۔ اس مسجد کو خانۂ خدا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بیت اللہ صرف حرم کعبہ ہی کو کہہ سکتے ہیں،وہاں کے طواف سے حج ادا ہوتا ہے، ملتزم پر چپک کر رونے سے دُعائیں قبول ہوتی ہیں،یہ ہے اللہ تعالیٰ کی نسبت۔ اسی لیے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کے ادب و اکرام سے لوگ گھبراتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے؟ یہ تو شخصیت پرستی معلوم ہوتی ہے، میں بھی بندہ وہ بھی بندے، ہم کیوں ان کا ادب کریں؟ تو مولانا نے فرمایا کہ دیکھو! بیت اللہ کا طواف کیوں کرتے ہو؟ اس لیے کہ اس یارِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن میں ایک مرتبہ کعبہ کو فرمادیا بَیْتِیْ یعنی یہ میرا گھر ہے ؎ کعبہ را یک بار بَیْتِیْ گفت یار اس نسبت سے آج سارا عالَم بیت اﷲ کا طواف کررہا ہے اور اس کے پتھر یعنی حجرِ اسود کو چوم رہا ہے، مگر اپنے خاص بندوں کے بارے میں کیا فرمایا ؎ گفت یَا عَبْدِیْ مرا ہفتاد بار لیکن مجھ کو ستّر دفعہ یا عَبْدِیْ یعنی میرا بندہ کہا ہے ، اے میرے بندے! اے میرے