راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
بندے! تمام قرآن میں دیکھو اﷲ نے ستّر سے زیادہ دفعہ مومن کامل کو اپنا بندہ کہا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ اللہ کے خاص بندوں کا ادب نہ کیا جائے؟ کعبہ کو ایک مرتبہ بَیْتِیْ کہا تو اس کی یاد تو آپ کو طواف کے لیے پاگل کردے اور اس عَبْدِیْ کی یاد نے آپ پر کچھ اثر نہیں کیا کہ اللہ نے اپنے خاص بندوں کو عَبْدِیْ کہہ کر اپنا بندہ ارشاد فرمایا ہے۔ لہٰذا اللہ کے خاص بندوں کی محبت اللہ کی محبت کا تقاضا ہے اور محبت کا یہ پیٹرول منٹوں میں اللہ تک لے اڑتا ہے۔ عشق کا پیٹرول راہِ سلوک میں قا بلِ قدر ہے اختر آج ساٹھ برس سے اوپر ہوچکا ہے، میں طبیہ کالج میں اٹھارہ ہی سال میں حکیم ہوگیا تھا، میں ساری زندگی ایسے مریضوں سے ملا ہوں جن کو نیند کم آتی تھی اور جن کو رومانٹک دنیا سے بہت مناسبت تھی یعنی شکارِ عشقِ مجازی تھے اور کہتے تھے کہ دل تڑپ رہا ہے، ایسے لوگوں کی باتوں کو میں بہت غور سے سنتا ہوں، اتنی محبت و شفقت مجھے کسی مریض سے نہیں ہوتی جتنی حسن و عشق کے ایکسیڈنٹ کے مریض سے ہوتی ہے۔ تو میں ان کی مرہم پٹی کے لیے بہت دل و جان سے کوشش کرتا ہوں۔ آپ کہیں گے کیوں؟ اس لیے کہ ان کے اندر ایک پیٹرول یعنی محبت کا مادّہ ہے جو غلط استعمال ہوگیا ہے، اس غلط استعمال کو میں صحیح استعمال سے تبدیل کرتاہوں اور جب یہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے مشرّف ہوجائے گا تو ولی اللہ ہوجائے گا۔اگر مجنوں کو شمس الدین تبریزی کی صحبت مل جاتی جس نے مولانا رومی کو ولی اللہ بنایا تھا تو وہی مجنوں بہت بڑا ولی اللہ ہوتا۔ افسوس کہ اس کو کوئی شمس الدین تبریزی نہ ملا جو اس کے عشقِ لیلیٰ کو عشقِ مولیٰ سے تبدیل کردیتا لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ہر زمانے میں شمس الدین تبریزی ہوتے ہیں مگر پہچاننے کے لیے نظر ہونی چاہیے۔ ہر صدی میں اللہ شمس الدین تبریزی کو پیدا کرتا ہے اور کئی کئی پیدا کرتا ہے، جو دنیا والوں کے عشقِ لیلیٰ کو عشقِ مولیٰ سے تبدیل کردیتا ہے، کیوں کہ محبت کا مادّہ وہی ہے، محبت کی اسٹیم وہی ہے۔ اگر کار کے انجن میں پیٹرول ہے تو جس پیٹرول سے وہ کار مسجد آسکتی ہے اسی پیٹرول سے وہ سینما اور کسی غلط اَڈّے پر بھی جاسکتی ہے۔ بولیے صاحب! تو ہم پیٹرول کو کیوں بُرا کہیں؟ ہم محبت کو کیوں بُرا کہیں؟ ہم تو استعمال کو بُرا کہتے ہیں۔