راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
گیا۔کسی کے چند الفاظ سن کر اس کا معتقد ہوجانا کہ آہا آہا! کیا کہنا! واہ صاحب! کیا بیان کرتے ہیں، کیا شعر پڑھتے ہیں، پھر اس سے بیعت ہوگئے، یہ محض حماقت ہے۔جس سے بیعت ہونے کا ارادہ ہو پہلے اس کے متعلق پوچھو کہ اس نے بھی کسی سے تربیت کرائی ہے یا نہیں، کسی کو استاد بنانے سے پہلے پوچھو کہ وہ بھی کسی کا شاگرد رہا ہے یا نہیں۔ کسی کو بابا مت بناؤ جب تک کہ اس کا بابا نہ معلوم کرلو، لَاتَاْخُذُوْہُ بَابَا مَن لَّا بَابَا لَہٗ اس کو ہرگز بابا مت بناؤ جس کا آگے کوئی بابا نہ ہو۔ نگاہِ اولیاء کی کرامت یہاں بہت سے ایسے دوست بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں مجھ کو اپنے شیخ کے ساتھ دیکھا ہے، یہاں ایسے لوگ بیٹھےہیں جنہوں نے میرے شیخ کا زمانہ پایا ہے۔ اختر خود کچھ نہیں ہے لیکن یہ سب ان ہی بزرگوں کی نسبت کا صدقہ ہے۔ میں کچھ نہیں ہوں۔یہ آپ کا اجتماع، آپ کا محبت سے آنا یہ ان ہی بزرگوں کی نسبت کا صدقہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ مفسرِ تفسیرِ موضح القرآن مسجد فتح پور دہلی میں تین چار گھنٹے عبادت کے بعد نکلے، باہر ایک کتّا بیٹھا تھا، اس پر نظر پڑگئی۔ حکیم الامت تھانوی اپنے ملفوظات میں لکھ رہے ہیں کہ وہ کتّا جہاں جاتا تھا دہلی کے سارے کتّے اس کے سامنے ادب سے بیٹھتے تھے۔ ایک نظر میں یہ حال ہوگیا تھا۔ حکیم الامت نے اس مضمون کو بیان کرکے ایک آہ کھینچی اور فرمایا کہ آہ! جن کی نگاہوں سے جانور بھی محروم نہیں رہتے ان کی نگاہوں سے انسان کیسے محروم رہے گا؟ کتابیں تو ہم سے زیادہ پڑھنے پڑھانے والے موجود ہیں،لیکن اختر پر شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی، شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اور شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم جیسے بزرگوں کی نگاہیں پڑی ہیں۔ جب میں ڈھاکہ ایئرپورٹ جاتا ہوں تو لوگ کس قدر بڑی تعداد میں محبت سے ملتے ہیں، پوچھو ان سے یہ بنگلہ دیش کے لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔ تو میں یہ عرض کررہا ہوں کہ نسبت کا اثر ہوتا ہے، فیض ہوتا ہے۔