راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
درِشیخ کے آداب الحمدللہ! نسبتِ شیخ کی وجہ سے میں نے اپنے شیخ کے نوکروں کی بھی خدمت کی ہے۔ شاہ عبدالغنی صاحب کے ہاں جو نوکر تھے وہ بالکل جاہل مطلق تھے لیکن میں نے کبھی کسی سے لڑائی نہیں کی، ہمیشہ شیخ کے ایک ایک فرد کا اکرام کیا ہے، اللہ کی توفیق سے مجھے ہر شخص بہت ہی محترم نظر آتا تھا، کیوں کہ وہ جیسا بھی تھا اُس کو میرے شیخ سے نسبت تھی۔ تھانہ بھون سے ایک بھنگی نانوتہ گیا۔ حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کو معلوم ہوا کہ میرے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے قصبے سے ایک بھنگی آیا ہے، جلدی سے چارپائی بچھاکر اس بھنگی کے لیے چادر بچھائی، بعض شاگردوں نے اعتراض کیا کہ آپ بھنگی کے لیے چادر بچھاتے ہیں، کہا کہ میں اس بھنگی کے لیے چادر نہیں بچھاتا بلکہ اس نسبت کے لیے بچھاتا ہوں کہ یہ میرے شیخ کے قصبہ تھانہ بھون سے آیا ہے۔ محبت کے والہانہ آداب دوستو! میں یہ کہتا ہوں کہ محبت والے سے زیادہ شکایت ہوتی ہے، جو محبت کا نام تو لیتے رہتے ہیں لیکن محبت کے آداب میں کوتاہی کرتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ؎ آنکہ شیراں مر سگانش را غلام بعض نالائقوں کو شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ بھئی! یہ کیسے پیر ہیں ہر ایک کے سامنے ہم کو جھکاتے ہیں، کم عمر والوں کے سامنے جھکاتے ہیں، ہم بڑے عالم و حافظ اور فلاں ہیں اور پیر صاحب ڈانٹ بھی رہے ہیں کہ تم نے میرے باورچی کو کیوں ڈانٹا، کیوں بُرا بھلا کہا، اب کہاں باورچی اور کہاں میں عالم اور حافظ، چناں چہ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ دیکھو! مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگرتم کو شیخ سے محبت ہے ؎ آنکہ شیراں مر سگانش را غلام تو اے دنیا والو سن لو! بہت سے شیر اپنے محبوب کی گلی کے کتّے کے غلام ہوگئے۔ کہاں شیر کی طاقت کہ اگر دھاڑ دے تو کتّا مرجائے۔ شیر کی آواز اتنی ہیبت ناک ہوتی ہے کہ کتّے کا اسی وقت ہارٹ فیل ہوجائے لیکن شیر اس کے پیچھے پیچھے دُم ہلارہا ہے کہ میرے محبوب کا کتّا ہے۔