راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
حضرت ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی علمی شان ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی علمی شان تو دیکھیے کہ ایک حدیث: طُوْبٰی لِمَنْ وَّجَدَ فِیْ صَحِیْفَتِہِ اِسْتِغْفَارًا کَثِیْرًا 3؎مبارک ہیں وہ بندے جو قیامت کے دن اپنے نامۂ اعمال میں کثرت سے استغفار پائیں گے،کی کیا عمدہ شرح کرتے ہیں، اللہ محدثین کو کیسی عقل عطا فرماتے ہیں، ملّا علی قاری فرماتے ہیں کہ نامۂ اعمال میں استغفار پانے کا کیا مطلب ہے؟ جب اس نے استغفار کیا تو نامۂ اعمال میں ضرور ملنا چاہیے لیکن یہاں پانے کی شرط کیوں ہے؟ وَجَدَ کیوں ہے؟ اِسْتَغْفَرَ کیوں نہیں ہے؟ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو استغفار کیا ہے قیامت کے دن اس کو پانے کی قید اس لیے لگائی کہ پائے گا تو جب ہی جب قبول ہوگا، اگر قبول نہیں ہوا تو پائے گا بھی نہیں اور قبول جب ہوگا جب اخلاص کے ساتھ استغفار کرے گا، لہٰذا اخلاص کے ساتھ اللہ سے مغفرت مانگیے۔ راہِ محبت کے حقوق اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہم پر فرض ہے، ماں باپ کو خوش کرنا ہم پر اخلاقی فرض ہے، شاگرد کا استاد کو خوش رکھنا اخلاقی فرض ہے اور سچے مرید پر اخلاقی طور پر فرض ہے کہ وہ اپنے شیخ کوکبھی ناراض نہ کرے، چاہے کتنے ہی جذبات ہوں، کتنا ہی غصے کا گھونٹ پینا پڑے، کتنا ہی کسی سے نفرت اور بغض ہو لیکن اگر شیخ کہہ دےخبردار! اس بھنگی سے محبت کرو، اس کے پیر دباؤ تو جو اصلی مرید ہوگا وہ اس بھنگی کے پیر دبائے گا، دل میں خیال بھی نہیں لائے گا کہ میں اتنا عظیم الشان ہوں اور میرے اندر اتنی اتنی خوبیاں ہیں اور شیخ مجھ سے بھنگیوں کے پیر دبوا رہا ہے۔ یاد رکھو! یہ راستہ محبت کا راستہ ہے، عقل پرستی کا نہیں ہے۔ حکایتِ مجنوں سے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا سبق مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن مجنوں کہہ رہا تھا اور اصل میں مجنوں _____________________________________________ 3؎سنن ابن ماجہ:406/2(3818)، کتاب الاٰدب، باب الاستغفار،المکتبۃ الرحمانیۃ