راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
میں اور۔ جغرافیہ بدلتا ہے تو عشق کی تاریخ بھی بدل جاتی ہے ؎ اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی مرنے کے بعد عشق کی تاریخ بدل جاتی ہے۔ اگر ہم لوگ ان حسینوں کو قبروں میں دیکھ لیں تو دیوانِ غالب اور دیوانِ میر تقی میر کو دفن کردیا جائے ؎ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے قبر میں دیکھو کہ وہ پنکھڑی کیا ہوئی، اس میں کیڑے چل رہے ہیں، یہ سب دھوکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی غلامی سے آزادی کا نتیجہ یاد رکھو! حسن بھی قیامت ہے اور عشق بھی قیامت ہے مگر خدا عشقِ مجازی سے بچائے، نفس کی ایسی ڈیمانڈ کو پورا کرنے سے بچائے۔ اس کو خوب سمجھ لیں کہ جس نے نفس دُشمن کے حرام تقاضوں پر عمل کیا، جس کا مشیر دُشمن ہو یا وزیر دُشمن ہو تو سمجھ لیں اس کی خیریت نہیں ہے، لہٰذا جو اپنے نفس کے گندے تقاضوں پر عمل کرتا ہے وہ سانڈ کی طرح آزاد زندگی گزارتا ہے اور اس کا حشر بھی سانڈ کی طرح ہوتاہے۔ آپ نے گاؤں میں دیکھا ہوگا کہ سانڈ کا سارا جسم زخموں سے چھلنی ہوتا ہے، اُسے ہر کھیت میں منہ ڈالنے کا مزہ تو آتا ہے، نفس کی ہر خواہش پر عمل کرنے کا مزہ تو آتا ہے لیکن اس پر لاٹھیاں بھی اتنی برستی ہیں کہ ساری کھال زخمی ہوجاتی ہے، بیماری میں کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں ہوتا اور مرنے کے بعد اس کو چیل کوّے کھا جاتے ہیں، یہ ہے آزادی کا نتیجہ ۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کی غلامی سے آزاد ہیں اور نفس کی غلامی کرتے ہیں تو بس سمجھ لیں کہ اللہ کی رحمت بھی ان سے ایسے ہی الگ رہتی ہے۔ حسنِ مجازی کے فریب کی مثال تو دوستو! میں عرض کررہا ہوں کہ صورتوں سے دل مت لگاؤ، جو شخص صورتوں کے