راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
اس بستی والوں کے دل میں اس مبلغ و مقرر و خادمِ دین کے لیے حسنِ ظن، نیک گمان اور محبت ڈال دیتا ہے۔ سب معاملہ اُدھر سے ہے ؎ حسن کا انتظام ہوتا ہے عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے لہٰذا یہ فخر کی بات نہیں ہے کہ وہاں میرا بہت زیادہ کام ہوتا ہے، اس میں میری قابلیت کو دخل نہیں ہے، اگر میری استعداد و قابلیت کو دخل ہوتا تو وہ قابلیت یہاں بھی کام کرتی، ہر جگہ کام کرتی لیکن بعض بستیوں میں کوئی پوچھتا تک نہیں۔ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب جب ہندوستان سے لاہور تشریف لائے تو مشکل سے دو چار آدمی آتے تھے اور جب کراچی آئے تو مجمع کے لیے شامیانہ لگنے لگا، اتنا بڑا مجمع ہوگیا۔ تو میرے دوست مرحوم حبیب الحسن خان شیروانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھئی! بس اللہ کام لیتا ہے جبھی کام ہوتا ہے، اللہ کی عطا کے لیے قابلیت شرط نہیں ہے، اللہ کی مہربانی اور رحمت کے لیے قابلیت شرط نہیں ہے بلکہ شرطِ قابلیت اس کی عطا ہے۔ اعمال بغیر قبولیت کے بے وزن اور بے کار ہیں اسی لیے بزرگوں نے فرمایا ؎ پیا جس کو چاہے سُہاگن وہی ہے عورت کتنی ہی حسین ہو لیکن اگر شوہر کی نظروں میں نہیں جچتی تو بےچاری تعجب کرتی ہے کہ مجھ سے بھی خراب شکل کی پڑوسن ہے، اسے تو اس کا شوہر ہر وقت پیار کرتا ہے اور میں اتنی حسین ہوں مگر میرا شوہر مجھے پوچھتا ہی نہیں۔لہٰذا جس کو شوہر پیار کرے سُہاگن وہی ہے، اسی طرح جس کو اللہ پیار کرے بندہ وہی ہےاور اگر تمام خوبیاں ہوں لیکن اللہ کے یہاں قبول نہ ہوں، فِیْہِ نَظَرٌ ہو، اللہ کو پسند نہ ہو، ہمارے روزے، ہماری نمازیں، ہمارے مدرسے، ہماری تلاوت، ہمارا ذکر اللہ کو پسند نہ ہو تو سب بے کار ہے۔ اگر اعمال قبول نہیں ہیں تو ان میں کوئی وزن نہیں ہے۔ بس محنت ہی محنت ہے۔