راہ محبت اور اس کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کی شانِ محبوبیت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کیا تھے؟ ایک ڈپٹی کلکٹر تھے اور بہت بڑے شاعر تھے، بہت ہی حسین و جمیل تھے اور بڑا لمبا قد تھا، جہاں بیٹھتے تھے خواجہ صاحب ہی خواجہ صاحب نظر آتے تھے۔ خواجہ صاحب کی اپنے شیخ کے عشق میں عجیب حالت تھی۔ ایک مرتبہ شبلی منزل اعظم گڑھ میں حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پانچ خلیفہ بیٹھے تھے، شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری اعظم گڑھی رحمۃ اللہ علیہ، ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، شاہ وصی اللہ صاحب اعظم گڑھی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم اور علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃاﷲ علیہ اور خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔ مولانا ابرارالحق صاحب نے فرمایا کہ اس مجلس میں میں بھی تھا لیکن علماء کے محضر میں خواجہ صاحب گفتگو کررہے تھے، دین کی باتیں سنارہے تھے اور سارے علماء سن رہے تھے۔ امیرمجلس اللہ تعالیٰ نے اس مسٹر کو بنایا تھا جس نے تھانہ بھون جاکر اپنی مسٹر کی ٹَر نکال دی تھی اور اپنے نفس کو مٹایا تھا اور پھر اللہ نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کا عشقِ شیخ خواجہ صاحب کانپور میں ڈپٹی کلکٹر تھے لیکن وہاں سے تھانہ بھون حکیم الامت کی خدمت میں جاتے تھے۔ایک مرتبہ حکیم الامت کانپور تشریف لے گئے اور کچھ دن قیام کے بعد واپس جانے لگے، تو حضرت کی جدائی کے صدمے سے خواجہ صاحب رونے لگے اور شیخ کی سواری کے پیچھے ننگے پیر یہ شعر پڑھتے ہوئے جارہے تھے ؎ دلربا پہلو سے اٹھ کر اب جدا ہونے کو ہے کیا غضب ہے کیا قیامت ہے یہ کیا ہونے کو ہے کرتے جاؤ آرزو پوری کسی نا شاد کی اک ذرا ٹھہرو کوئی تم پر فدا ہونے کو ہے شیخ کی ایسی محبت ہونی چاہیے، لیکن یہی محبت لیلیٰ پر ضایع ہوجاتی ہے اور اگر یہی محبت مرشد پر،