کے اعلان کرنے والے یتیمِ ابی طالب نے (سلام ہو ان پر، صلوٰۃ ہو ان پر ) اُس وقت جواب دیا جب قدید کے ریگستان میں قرض کی خرید ی ہوئی ایک اونٹنی کے سوا اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ پھر جب ہونے کے بعد اسی واقعہ کو مدینہ کی مسجد میں اس طرح دیکھا گیا کہ وہی تاج جو سونے کی زنجیروں میں بند ھا ہوا 2 کج کلاہ ایران کے سر پرلٹکتا رہتا تھا، اسی مدلجی دہقان کے سر پر رکھا ہوا ہے، جواہر نگار کمر بند اس کی کمر سے باندھا گیا ہے، زیور پہنائے گئے ہیں، تو کرۂ زمین کا جو سب سے بڑا باد شاہ تھا 3کتنی پستی کے لہجہ میں کہہ رہا تھا: سراقہ !ہاتھ اٹھا اور بول اﷲ أکبر۔ اسی کے لیے ساری ستایش ہے جس نے کسریٰ سے چھینا اور مالک بدو کے بیٹے اس سراقہ کو پہنایا جو بنی مدلج کے گنواروں کا ایک گنوار ہے۔ فاروق اعظمؓبھی اس کے ساتھ اﷲ أکبر اﷲ أکبر کا نعرہ لگاتے جاتے تھے۔
بہرحال قریش کا آخری منصوبہ اسی خاک میں مل گیا جو ان کے سرو ں پر پڑی ہوئی تھی۔ مکی زندگی ختم ہو گئی، اس زندگی میں جو کچھ دکھانا تھا، جن باتوں کا تجربہ کرانا تھا، جس کی گواہیاں مہیا کرنی تھیں، سب کام پورا ہو گیا، بڑے سکون، انتہائی ثبات ، کامل استقامت سے پورا ہوا۔
اور دیکھو کہ اس زندگی کے ختم ہونے کے ساتھ جیسا کہ میں نے کہا تھا جو آگے تھے پیچھے ہو گئے اور جوپیچھے تھے آگے ہوگئے، مدینہ ایمان سے بھر گیا، حالاںکہ وہاں کے لوگ بعد کو آئے، لیکن جن میں وہ خود آیا تھا بخت کی کوتاہی دیکھو کہ ان میں اکثروں کو اب تک ہو ش نہیں آیاکہ بڑائی کے نشہ میں متوالے ہیں،کچھ شکوک کی چادر اپنے ایمانی احساس پر ڈالے ہیں، دل کے متعلق بالکل اطمینان ہے لیکن دماغ سے ان کو تاہ نظروں کا دماغ کچھ بد گمان ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭
بسم اﷲ الرحمن الرحیم