ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
برابر ایک جماعت اَمر حق پر مضبوطی سے ثابت قدم رہے گی، اِس کو کسی کی مخالفت نقصان نہ پہنچاسکے گی لَا تَزَالُ طَائِفَة مِّنْ اُمَّتِیْ قَوَّامَةً عَلٰی اَمْرِ اللّٰہِ لَا یَضُرُّھُمْ مَّنْ خَالَفَھُمْ۔ (فیض القدیر ٦/ ٤٨٧) اور ایک اور روایت میں ہے کہ اِس اُمت کے بعد میں آنے والے معتبر لوگ ہی علم کتاب و سنت کے حامل ہوں گے جو دین سے (١) غلو پسندوں کی تحریفات (٢) باطل پسندوں کی فریب کاریوں (٣) اور جاہلوں کی فاسد تاویلات کا قلع قمع کردیں گے یَحْمِلُ ھٰذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلْفٍ عَدُوْلُہ یَنْفَوْنَ عَنْہُ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَاوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ۔ (رواہ البیہقی فی کتابہ المدخل، مشکٰوة) معلوم ہوا کہ اِس طرح کے مستقل شعبہ کا وجود بھی اُمت میں لازم ہے ورنہ یہ اِمتیاز ہی نہ رہے گا کہ کیا حق ہے اور کیا باطل ؟ اور طاغوتی قوتیں محنتیں کرکے اصلی دین ہی کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں گی، اِس لیے دین کے تحفظ اور اُس کی ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اُن تمام باطل فتنوں سے ٹکر لی جائے جنہوں نے جاہلانہ تحریفات اور واہیات اور رکیک تاویلات کے ذریعہ گمرا ہی کا جال بچھا رکھا ہے، جو لوگ اِس کام میں مشغول ہیں وہ بھی دین کی ایک عظیم الشان خدمت اَنجام دے رہے ہیں، نئے زمانہ کے ''صلح کل'' لوگ اپنی مریض ذہنیت کی بناء پر اِس طرح کی محنتوں کو فضول بلکہ مضر سمجھتے ہیں مگر یہ اُن کی محض کج فہمی ہے، اگر حق و باطل کا فرق نہ رہے تو دین مسخ ہوجائے گا اور سنت و بدعت کا کچھ پتہ نہ چل سکے گا، ذرا غور فرمائیے اور تاریخ کے اَوراق پلٹ کر دیکھیے ! اگر تاریخ کے ہر دور میں علماء اِسلام نت نئے فتنوں کے خلاف سینہ سپر نہ ہوتے اور احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ اَنجام نہ دیتے تو کیا دین کی اصلی صورت باقی رہ جاتی ؟ اِن ہی علمائے حق نے اللہ کی توفیق سے شیعیت اور رافضیت کے غرور کو خاک میں ملادیا، اِنہوں نے ہی فتنۂ اعتزال کو نیست ونابود کیا، اِن ہی کی جرأت و اِستقامت نے اکبر اعظم کے ''معجون مرکب دین اِلٰہی'' کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا، اِن ہی سر بکف محبانِ رسول ۖ نے قادیانیت کی پر فریب سازشوں کو طشت ِاَزبام کیا اور آج تک اِس مہم میں سرگرم ہیں اور جب بدعات و خرافات نے چولی دامن کے ساتھ رضا خانیت کے نام