ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2015 |
اكستان |
|
''ستمے سنگین باشد کہ زنِ یک جمیلہ باشد و جفت دیگرے قبیحہ۔ پس شرط عدالت ودینداری آنست کہ مرد زنِ جمیلہ خودرا چند روز بداں کس دہد کہ جفت اُو بدو زشت ست وزست اُور ا یک چند بخود در پزیر۔'' (دبستانِ مذاہب ص ١٣٤) ١ پیٹ کا شور مچانے والوں نے اِس تاریخ سے سبق لیا، عورت کو گھر سے نکالا، کارخانے اور دفتروں میں پہنچایا، بچہ اُس سے لے کر سرکاری پرورش گاہ میں بھیج دیا اور اُس کو زمانہ زچگی کی رُخصت دے دی، لیکن ہر سال ولادت ہونے لگی تو زچگی کی رخصتوں میں بھی پابندی لگادی گئی مثلاً یہ کہ پانچ دفعہ سے زیادہ زچگی کی رُخصت نہیں دی جائے گی۔ اب مردو عورت جنسی تعلقات میں آزاد ہیں اَلبتہ نہ عورت ماں بنے گی نہ مرد باپ، شاید اُن کو یہ پتہ بھی نہ چلے کہ اُن کے جنسی تعلقات کا جو نتیجہ تھا وہ زندہ ہے یا مردہ ؟ اگر زندہ ہے تو کہاں ہے ؟ اُس کا مستقبل کیا ہے ؟ ''محبت ''کا سلسلہ گھر سے چلتاہے، ماں کی مامتا باپ کی شفقت کا ردِ عمل اَولاد کی محبت ہے، ملی جلی زندگی میں بہن بھائیوں اور رشتہ داروں میں بے لوث محبت کی شاخیں پھیلتی ہیں لیکن جب زندگی کی پہلی ہی منزل میں یہ چمن بر باد کر دیاگیا تواَب محبت کا نام صرف عیش پرستی کی خاطر آسکتا ہے، آپس کی ہمدردی، اِمدادِ باہمی اور اِنسانی شرافت سے اِس کا تعلق نہیں رہے گا۔ اور بقول عارف جامی اِنسانی سماج کی تصویر یہ ہوگی ۔ ایں نہ مردانند اینہا صورت اَند مردہ نانند کشتگانِ شہوت اَند ٢ (باقی صفحہ ٣٣ ) ١ ایک سنگین ظلم ہے کہ ایک کی بیوی خوبصورت ہواور دُوسرے کی بد صورت۔ اِنصاف اور دینداری کی شرط یہ ہے کہ شوہر اپنی حسین و جمیل بیوی کو چند روز کے لیے اُس کو دے دے کہ اُس کی بیوی بد صورت ہے اور وہ اُس بد صورت کو چند روز کے لیے خود قبول کر لے۔ ٢ یہ مرد نہیں ہیں بلکہ مردوں کی صورتیں ہیں ،یہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ شہوت کے مارے ہوئے ہیں۔