ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
بھی ہو رہی ہے اُس زمانے کی پہلی بین الاقوامی یونیورسٹی ہے، اُس میں کالے بھی اُس میں گورے بھی، اُس میں شام کے لوگ بھی، اُس میں یمن کے لوگ بھی، اُس میں حبشہ کے لوگ بھی، اُس میں مکہ اور مختلف علاقوں کے لوگ بھی،یہ سارے کے سارے پڑھ رہے ہیں علم حاصل کر رہے ہیں، وہ بھی دیکھا اُس نے۔ اُس نے کہا کہ اگر تم نے مجھ سے معاملہ ٹھیک نہ کیا تو تمہاری شاہراہ بند کردُوں گا حتی کہ رسول اللہ ۖ تمہیں اِجازت دیں۔ چنانچہ اُس نے ایسے ہی کیا، تلخی ہوئی اُس نے جا کر بند کردی شاہراہ، اَب جب بند کی تو مکہ میں قحط پڑ گیا، جب قحط پڑا تو اُنہوں نے وفد بھیجا حضرت محمد رسول اللہ ۖ کی خدمت میں کہ آپ کی مہربانی، واسطے دیے قسمیں دیں کہ خدا کے لیے آپ ہمارے رشتے دار ہیں کچھ نہیں تو قبیلہ تو آپ کا ہی ہے ،جیسے چالاک لوگ کیا کرتے ہیں اِس طرح کے واسطے دیے۔ رسول اللہ ۖ نے پھر اُن کو حکم دیا کہ تم اِن کا راستہ کھول دو تو راستہ کھلا ورنہ اُس نے بند کردیا تھا۔ آج مسلمان کیوں ذلیل ہے ؟ آج مسلمان اِس لیے ذلیل ہے کہ '' ورنہ'' کی جو قوت تھی وہ مسلمان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اِس کی مثال میں دیا کرتا ہوں ہمارے علامہ خالد محمود صاحب کو جانتے ہیں آپ سب ، اُنہوں نے ایک واقعہ سنایا : کہنے لگے کہ میں مکہ مکرمہ گیا وہاں میں گاڑی میں سفر کر رہا تھا ٹیکسی لی میں نے، مجھے جلدی تھی وہ نوجوان ٹیکسی آرام سے چلا رہا تھا، میں نے اُس سے کہا مجھے جلدی ہے وہ پھر بھی آہستہ چلتا رہا ،کہنے لگے میں نے اُسے پھر کہا کہ تیز چلاؤ مجھے بہت جلدی ہے وہ پھر ایسے ہی چلتا رہا، تیسری دفعہ پھر کہنے لگے میں نے اُسے زوردے کر کہا کہ بھئی تیز چلو ''ورنہ ''کہنے لگے کہ اُس نے میری طرف گھور کے دیکھا اور اُس نے کہا ''ورنہ'' کیا ؟ کہنے لگے میں نے اُسے کہا ''ورنہ'' پھر اِسی میں سفر کروں گا۔ تو اَب مسلمان کے پاس'' ورنہ'' کی یہ قوت رہ گئی ہے ،نبی علیہ السلام نے ''ورنہ'' کی وہ قوت سکھائی تھی۔