ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
میں دیکھنے کے معنی متعین کردیے کہ قرآن نے اِس دِکھاوے کو جو حضور علیہ السلام نے معراج میں دیکھا ''فِتْنَةً للِّنَّاسِ''کہہ کر اِمتحانِ اِیمان قرار دیا اور بموجب روایات اہل ِمکہ نے اِمتحانًا حضور ۖ سے بیت المقدس اور مسجد ِ اقصیٰ کے اَحوال دریافت کیے۔ اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو اِس میں نہ فتنہ تھا نہ اِیمان کااِمتحان اور نہ دَریافت کی ضرورت۔ خواب میں تو اِس سے بڑے واقعات بھی قابلِ تعجب نہیں ہوتے، معلوم ہوا کہ واقعہ بیداری کا تھا۔ قرآن سے جسمانی معراج کا ثبوت : قرآنِ حکیم نے سورۂ بنی اِسرائیل میں واقعہ معراج کو اِس اَنداز میں بیان کیا ہے کہ جس سے معراج کا جسمانی ہونا خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اِبتدائِ سفر سے لے کر اِنتہائِ سفر تک آپ کی ایک جیسی حالت تھی، ایسا نہیں ہو سکتا کہ اِس واقعہ کا کچھ حصہ جسمانی طور پر بیداری میں ہوا اور کچھ رُوحانی ہو اور خواب ہو۔ سورۂ بنی اِسرائیل کی آیت یہ ہے : ( سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ اٰیَاتِنَا) اِس قرآنی اِرشاد میں جسمانی معراج کی وجوہات حسب ِ ذیل ہیں : (١) واقعہ کاآغاز لفظ ( سُبْحٰنَ )سے ہوا ہے جو تعجب کے لیے اور اِظہار ِ قدرت کے لیے اِستعمال ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج تعجب اَنگیز بھی ہے اور ظہورِ قدرت ِخداوندی کی نشانی بھی ہے اور یہ اِس صورت میں ممکن ہے کہ واقعہ معراج جسمانی ہو خواب نہ ہو کیونکہ خواب کیسا بھی ہو اِس میں اللہ کے اِعتبار سے نہ تعجب اَنگیزی ہے اور نہ اِس عظیم قدرت کا ظہور ہے۔ (٢) ( بِعَبْدِہ ) کے لفظ میں ظاہر کیا گیا کہ اِس واقعہ کا تعلق جسم اور رُوح دونوں سے ہے کیونکہ'' عَبْد'' رُوح و جسد دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ صرف رُوح کا۔ ورنہ خدا یوں فرماتا اَسْرٰی بِرُوْحِہ۔ لفظ ( بِعَبْدِہ ) عبادت سے ہے اور عبادت جسم اور رُوح کے مجموعے سے متعلق ہے جیسے سور ۂ جِن میں حضور علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے ( وَاَنَّہ لَمَّا قَامَ عَبْدُاللّٰہِ ) یا سُورَةُ الْعَلَقْ