ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
پائی ،گھروں پر تعلیم پانے سے لڑکیوں کا کسی طرح کا نقصان نہیں ہوتا کیونکہ پڑھانے والی بھی نیک اور پردہ نشین ہوتی ہے اور لڑکیاں بھی پردہ ہی میں رہ کر تعلیم پاتی ہیں۔ باقی یہ جو آج کل زنانے اسکول ہوئے ہیں تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بہت ہی مضر ہیں رہا یہ کہ کیوں مضر ہیں ؟ چنانچہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب اسکول میں پردہ کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے اور پردہ کے ساتھ لڑکیوں کو بند گاڑی میں پہنچادیا جاتا ہے تو پھر اِن کے مضر ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ تو ہمیںاِس کی علت کی خبر نہیں مگر تجربہ یہی ہے کہ اسکولوں کی تعلیم عورتوں کو بہت ہی مضر ہوتی ہے اِس سے اُن میں آزادی اور بے حیائی اور پردہ سے نفرت کا مضمون پیدا ہوجاتا ہے اور (عورت کا سب سے بڑا وصف) حیاء ہے اور یہی مفتاح ہے تمام خیر کی، اگر یہ نہ رہا تو پھر اِس سے نہ کوئی خیر متوقع اور نہ کوئی شر مستبعد اِذَا فَاتَکَ الْحَیَائُ فَافْعَلْ مَاشِئْتَ ( جب تم میں حیاء نہ رہے سو جو چاہو کرو ) ۔(حقوق البیت ص ٣٢) یہ میری رائے ہے فتوی نہیں ہے : یہ میری سمجھ میں کسی طرح نہیں آتا کہ زنانہ مکتب قائم کیا جائے جیسے مردانے مکتب باقاعدہ ہوتے ہیں۔ اِس باب میں واقعات اِس کثرت سے ہیں کہ اِن واقعات نے یقین دلایا ہے کہ ایسے مکتبوں کا حال اچھا نہیں ہوتا اور اِمتحان ہوجانے کے بعد ہمیں وجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ میری رائے ہے میں فتوی نہیں دیتا ہوں اگر تجربہ سے دُوسری تجویز مفاسد سے خالی ہو تو اُس پر عمل کیا جائے مگر عورتوں کو تعلیم ضرور دینا چاہیے لیکن مذہبی تعلیم نہ کہ تعلیم ِجدید۔ (العاقلات الغافلات ص ٣٢٤) زنانہ اسکول میں مفسدہ کی وجہ اور اَصل بنیاد : تعلیم نسواں کا مسئلہ بڑا مشکل ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ جہاں لڑکیوں کا مدرسہ ہوتا ہے وہاں مفاسد بھی ضرور پیدا ہوتے ہیں کہیں آنکھ لڑ گئی کہیں اور بے حیائی کی باتیں ہوتی ہیں ،ایسے واقعات بہت ہوتے ہیں اِس کا اَثر یہ ہواکہ بڑے بوڑھوں کاطبقہ تو خود تعلیم ِ نسواں کے مخالف ہو گیا حالانکہ یہ بھی غلطی ہے کیونکہ اِس میں تعلیم کا قصور نہیں بلکہ منتظمین اور طرزِ تعلیم کا قصور ہے۔ (باقی صفحہ ٦٠ )