ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
اِبن اُبی ٔ اُس کے بیٹے پکے مسلمان تھے اور وہ ہمیشہ دھوکے دیتا رہا مگر اِس کے باوجود جب اُس کی موت ہوئی تو رسول اللہ ۖ نے اپنی قمیص مبارک عنایت فرمائی ،اپنا لعابِ مبارک بھی ڈالا اور نماز بھی پڑھا دی ،بعد میں یہ حکم نازل ہوا کہ نہ پڑھائیں اُن کی نماز ( لَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہ )اُس کی قبر پر بھی جاکر نہ کھڑے ہوں چونکہ رسول اللہ ۖ کا وجود ِ مبارک رحمت ہی رحمت ہے تو اُس کی قبر جو ایک طرح سے عذاب کا مرکز ہے اُس کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا کہ اِس رحمت کااَثر وہاں نہ پہنچنا چاہیے۔ دِلداری جو فرماتے رہے اِس سے فائدہ یہ ہوا کہ اُس کی موت پر تقریبًا ایک ہزار آدمی مسلمان ہوگئے،موازنہ تو کرتا ہے نا آدمی کہ اِس کی باتیں کیسی ہیں اور دُوسرا آدمی اگر سامنے ہو تو سوچتا ہے کہ اِس کی باتیں کیسی ہیں ؟ آج بھی یہی ہے ایک آدمی اِس طرح کا ہو اوردُوسرا بات کا سچا ہو تو اِعتماد کرنے لگتے ہیں سچے پر اور رفتہ رفتہ اُس کی حقیقت کھل جاتی ہے اِعتماد ہٹ جاتا ہے سمجھ جاتے ہیں لوگ کہ یہ اِس قسم کا آدمی ہے۔ تو آقائے نامدار ۖ کا جو روّیہ تھا وہ نہایت اچھا ظاہرًا باطنًا بڑا رعایت والا اور اُن کا ظاہر کچھ باطن کچھ تو اُس کے بعد بہت مسلمان ہوئے وہ خود نہ عیسائی تھا نہ یہودی بلکہ مشرک تھا۔ آپ کے بعد منافقین کے متعلق پالیسی ،حضرت عمر کے اِرشادات : لیکن یہ دَور گزر چکا بعد میں دَور آگیا صحابۂ کرام کا اَب اُنہوں نے کہا ہم پر تو وحی آتی نہیں جو کسی کو کافر کہیں یا یہ کہہ دیں کہ یہ منافق ہے یا اُس کے بارے میں اِعتقاد جمالیں کہ یہ کبھی بھی مسلمان نہیں ہوگا تو اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ تقریر کی خطبہ دیا اُس میں فرمایا کہ وحی منقطع ہوگئی اِنَّ الْوَحْیَ قَدِ انْقَطَعَ ۔ پھر کیا ہوگا ؟ تووہ کہتے ہیں کہ اِنَّمَا نَأْخُذُکُمُ الْاٰنْ بِمَا ظَھَرَلَنَا مِنْ اَعْمَالِکُمْ اَب تو جو تمہارے اَعمالِ ظاہرہ ہیں جو ہمیں نظر آرہے ہیں بس اُن پر مواخذہ کر سکتے ہیں تو فَمَنْ اَظْھَرَ لَنَا خَیْرًا جو آدمی ہمارے سامنے اچھائیاں کرتا ہوا نظر آئے گا اُس پر ہم اِطمینان کریں گے اور اُس کی تصدیق بھی کریں گے اُس کو اپنے قریب بھی کریں گے اَمِنَّاہُ وَ قَرَّبْنَاہُ اورباطن اللہ کے حوالے ، اللہ