ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
میں ( اَرَأَیْتَ اَلَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی) '' عَبْد''سے حضور علیہ السلام کا مجموعہ رُوح و جسد مراد ہے اِسی طرح قرآن میں جہاں کہیں لفظ'' عَبْد'' آیا ہے رُوح وجسم کے مجموعے کے لیے اِستعمال ہوا ہے تو واقعہ معراج میں بھی وہی معنی مراد ہیں۔ (٣) تیسری وجہ لفظ (اَسْرٰی) ہے جو قرآن اور لغت ِ عرب میں رُوح اور جسم کے مجموعہ کو رات کے وقت لے جانے کا نام ہے جیسے لوط علیہ السلام کو قرآن میں اِرشاد ہے( فَاَسْرِ بِاَھْلِکْ ) آپ اپنے اہل کو رات کے وقت لے چلیں، نہ یہ کہ اُن کی رُوح کو لے چلیں۔ اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا حکم ہوا ( اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ ) اے موسیٰ ! میرے بندوں کو رات کے وقت لے چلو یقینا تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔ اِن دونوں آیتوں میں وہی لفظ آیا ہے جو واقعہ معراج کے بیان میں آیا ہے یعنی(اَسْرٰی) کا لفظ لیکن دونوں جگہ جسمانی سیر مراد ہے نہ کہ خواب یا رُوحانی سیر، اِسی طرح واقعہ معراج کو بھی سمجھنا چاہیے۔ واقعہ معراج پر عقلی بحث : اِس واقعہ میں عقلاً چند شبہات پیش کیے جا سکتے ہیں : (١) اَوّل یہ کہ اِس واقعہ کا مقصد اگر خدا کو دیکھنا تھا تو یہ اِس سفرکے بغیر بھی ممکن تھا سفرکرانے کی کیا ضرورت تھی ؟ جواب اَوّلاً یہ ہے کہ قرآن نے مقصد ِسفر بیان کیا ہے ( لِنُرِیَہ مِنْ اٰیَاتِنَا) کہ اِس سفر کا مقصد عالمِ بالا کی اَشیاء کا دِکھانا تھا جن کے دیکھنے سے اللہ کی عظیم قدرت کا ظہور ہوتا ہے مثلاً عرش ،قلم، لوحِ محفوظ، سدرة المنتہیٰ ،جنت ،وغیرہ۔ دوم عالم ِ بالا گناہوں سے پاک ہے اور عجائبات ِ قدرت کا محل ہے، وہاں لے جانے میں خاتم الانبیاء علیہم السلام کے اعزاز و اِکرام کا ظہور ہے۔ (٢) دُوسرا شبہ یہ ہے کہ اِس سفر میں حرو قر یعنی گرمی اور سردی سے حفاظت کا کیا اِنتظام تھا ؟