ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ واقعہ معراج کے وقت مشرف بہ اِسلام نہیں ہوئے تھے بلکہ واقعہ معراج سے آٹھ نو سال بعد مشرف بہ اِسلام ہوئے لہٰذا واقعہ معراج میں اُن صحابہ کرام کی روایت ہی صحیح ہے جو اِس واقعہ کے وقت بڑی عمرکے تھے اور مشرف بہ اِسلام تھے اور خود حضور علیہ السلام سے جو کہ صاحب ِواقعہ تھے اُنہوں نے واقعہ کی حقیقت سنی تھی، وہ سب روایات صاف دَلالت کرتی ہیں کہ یہ واقعہ بیداری اور جسمانی شکل میں پیش آیا نیز رؤیت ِ باری کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اِنکار اور اِستدلال بھی جو صحیحین میں مذکور ہے اِس اَمر کی دلیل ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس سفر کے بیداری اور جسمانی صورت میں ہونے کی قائل تھیں، صرف آنکھ کے ذریعہ اللہ کو دیکھنے میں متردّد تھیں ورنہ خواب میں خدا کے دیکھنے کا کون اِنکار کر سکتا ہے۔ اہلِ اِلحاد کا اِستدلال اور اُس کا رَد : حدیث ِشریک : اَنَا بَیْنَ النَّائِمِ وَالْیَقْظَانِ یا روایت فَاسْتَیْقَظَ کہ میں نیند اور بیداری کی حالت میں تھا یا یہ کہ پھر حضور ۖ جاگے۔ اِس کا جواب اَوّلاً یہ ہے کہ'' شریک '' (نامی) راوی کثیر الغلط ہے اور محدثین نے اِس روایت میں اِس کی غلطی کی تصریح کی ہے اِس نے اپنے بیان میں بے ترتیبی کی ہے۔ دوم یہ کہ اِمام قرطبی نے اِسی حالت کو اِبتداء پر محمول کیا ہے کہ جب سفرِ معراج کے لیے تشریف لے جانے لگے توآپ نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھے پھر بیدار ہوئے یا محدثین کے نزدیک اِنتہائِ سفر پر محمول ہے جب حضور علیہ السلام نے سفرِ معراج طے کیا اور واپس مسجد ِحرام تشریف لائے تو تھکان کی وجہ سے سو گئے پھر بیدار ہوئے۔ اِس تطبیق کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ عام مشہور روایات جو اِس سفر کی بحالت ِ بیداری جسمانی طور پرہونے پر دَال ہیں یہ روایت اُن کے مطابق ہوجائے ورنہ'' شریک'' (نامی) راوی کی روایت کو غلطی پر محمول کرنا پڑے گا کہ اُس نے اِبتدائِ سفر یا اِنتہاء ِسفر کی حالت کو درمیانی واقعہ میں بیان کیا ہے۔ اِسی طرح قرآنِ پاک کی آیت ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَةً للِّنَّاسِ وَالشَّجَ