ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
اُوپر سے لے کر نیچے تک یہ ہے، عام سے لے کر خاص تک ،بڑے دولت مند سے لے کر چھوٹے تک اور بڑے حاکم سے لے کر اَدنی تک یہ بات پائی جا رہی ہے۔ صوفیاء کے چاروں سلسلے حضرت حسن بصری کے واسطہ سے حضرت علی تک : تو اِس کے بارے میں حسن بصری رحمة اللہ علیہ جو تابعی ہیں صحابہ کرام کو دیکھا ہے بڑے خوش قسمت ہیں کہ اِن کی والدہ ماجدہ، زوجہ مطہرہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں جب یہ دُودھ پیتے تھے ، اُس زمانے میں جب یہ روتے تھے تو وہ اَپنا دُودھ اِن کے منہ میںدے دیتی تھیں تو اِنہیں یہ سعادت بھی حاصل ہے، مدینہ منورہ ہی میں رہے ہیں حتی کہ دَور بدلا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا وہ باہر نکلے مدینہ منورہ سے تو اُس کے بعد یہ بھی بصرہ وغیرہ آگئے پھر بصرہ ہی میں رہے اور آپ سنتے ہیں تو حسن بصری سنتے ہیں،بہت بڑے بزرگ تھے اَولیاء ِکبار میں داخل ہیں اور رُوحانی تربیت اِن کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوئی اور یہ ہمارے شجرے جتنے یہاں چلتے ہیں طریقت کے سلسلے یہ سارے کے سارے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جاتے ہیں ،چشتی بھی قادری بھی نقشبندی بھی سہر وردی بھی، یہ چار سلسلے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما، اَفغانستان اِن علاقوں میں رائج ہیں یہ ،یہ چاروں کے چاروں سلسلے اُن پر جاتے ہیں۔ حضرت اَبوبکر اور سلسلۂ نقشبندیہ : نقشبندی ایک طریقہ ہے وہ اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر جاتا ہے لیکن درمیان میں اُس میں اِنقطاع ہے یعنی ایک بزرگ کو فیض حاصل ہوا ہے اُن بزرگ سے کہ جن کی وفات کو پچاس سال گزر چکے تھے تو یہ رُوحانی فیض تھا۔ ایک اور بزرگ ہیں اُن کو فیض حاصل ہوا ہے رُوحانی طور پراُن بزرگ سے کہ جن کی وفات کو ڈیرھ سو سال کا عرصہ گزر چکا تھا تو محدثین کے طرز پر متصل سلسلہ کہ زندگی میں مِلا ہو پیر سے ایسی صورت اگر دیکھی جائے تو وہ سلسلے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک جاتے ہیں تو اَکابرِ دیوبند جو ہیں اِن کے یہ سب سلسلے ہیں،وہ اَبو بکر رضی اللہ عنہ والا بھی۔