ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
تعلیم النسائ ( اَز اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی ) زنانہ اسکول اور مدارس سے متعلق حضرت تھانوی کی رائے : اِس تقریر سے دو جزئیوں کا حکم معلوم ہوگیا جن کا اِس وقت بے تکلف شیوع ہے ایک لڑکیوں کا عام زنانہ اسکول بنانا اور عام مدارس کی طرح اُس میں مختلف اَقوام اور مختلف طبقات اور مختلف خیالات لڑکیوں کا روزانہ جمع ہونا، گو معلمہ مسلمان ہی ہو اور یہ آنا ڈولیوں ہی میں ہو اور گو یہاں آکر بھی پردہ ہی کے مکان میں رہنا ہو لیکن تاہم واقعات نے دِکھلا دیا ہے اور تجربہ کرادیا ہے کہ یہاں ایسے اِمکانات جمع ہوجاتے ہیں جن کا اُن کے اَخلاق پر بر ااَثر پڑتا ہے اور یہ صحبت اَکثر عفت سوز ثابت ہوتی ہے اور اگر اُستانی بھی کوئی آزاد یا مکار مِل گئی تو کریلہ اور نیم چڑھا کی مثال صادق آجاتی ہے۔ اور دُوسری جزئی یہ کہ اگر کہیں مشن کی مہم سے بھی روزانہ یاہفتہ وارر نگرانی تعلیم یا صنعت سکھلانے کے بہانہ سے اِختلاط ہو تب تونہ آبرو کی خیر ہے اورنہ اِیمان کی۔ (اِصلاح اِنقلاب ص ٢٩٤) زنانہ اسکول میں تعلیم کا ضرر : آج کل زنانہ اسکول کے ذریعہ سے یا زنانہ مدارس کے ذریعہ سے تعلیم دینا تو سمِ قاتل ہے۔ میں مدارسِ نسواں کو پسند نہیں کرتا خواہ کسی عالم ہی کے تحت ہوں۔ تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ ہر گزہر گز ایسا نہ کرو ورنہ اگر تم نے میرا کہنا نہ مانا تو بعد میں پچھتاؤ گے بس اسکولوں اور مدرسوں کو چھوڑ دو ،عورتوں کو گھر میں ہی رکھ کرتعلیم دو، اگر عربی تعلیم دو تو سبحان اللہ ورنہ اُردو ہی میں دینا چاہیے۔ میرا ایک وعظ حقوق البیت ہے اُس کے اَخیر میں اِس پر مفصل کلام کیا گیا ہے جو قابلِ مطالعہ ہے۔ شرفاء نے کبھی اِس کو پسند نہیں کیا کہ لڑکیوں کے لیے زنانہ مدرسہ ہو ۔ قصبات میں عمومًا لڑکیاں لکھی پڑھی ہوتی ہیں مگر سب اپنے اپنے گھروں میں تعلیم پاتی ہیں، مدرسہ میں کسی نے بھی تعلیم نہیں