ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
تو یہ بہت بڑے آدمی تھے عالِم بھی ہیں اِن کے اَقوال نقل کیے جاتے ہیں فقہ میں بھی ، یعنی حدیث کی جہاں بحثیں آتی ہے اُس میں یہ ذکر آتا ہے کہ اِن کا یہ فتوی ہے اِن کا یہ فتوی ہے یہ فتوی ہے بہت آتا ہے ۔ ظاہر ی منافق کے بارے میں حضرت حسن بصری کا فتوی، پھر رُجوع : تو اِن کا ایک فتوی یہ تھا کہ جس آدمی میں یہ چار عادتیں ہوں وہ تو منافق ہو گیا یعنی فتوے کی رُو سے اِیمان سے نکل گیا یہ بڑا سخت فتوی تھا اور اُس دَور کے علماء کے خلاف تھا متشددانہ تھا یہ، تو شاگردوں میں تووہی بات چل پڑتی ہے پھر ،عقیدت مندوں میں بھی وہی بات چل پڑتی ہے جو بڑا کہہ رہا ہوتا ہے تو مکہ مکرمہ جانا آنا ہر وقت تھا ہی عمروں کے لیے اور حج کے لیے مسلمان سفر کرتے ہی رہتے تھے اور علماء جمع ہوتے ہی رہتے تھے تبادلہ ٔ خیال کرنا پوچھنا مسائل کا پڑھنا پڑھانا یہ جاری تھا تو وہاں حضرت عطا ء اِبن اَبی رَباح تھے ایک مکہ مکرمہ کے اِن ہی کے معاصر ہیں اور بہت بڑے عالم، مکہ مکرمہ کے تقریبًا اپنے دَور کے بڑے عالم تھے جن کو اہلِ مکہ ایک رحمت سمجھتے تھے تو ہوتے ہوتے اُنہیں یہ بات پہنچی اِن کا کوئی خاص آدمی گیا تھا اُس سے پوچھا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ حسنِ بصری یہ کہتے ہیں کہ جس میں یہ چار عادتیں ہوں وہ بالکل منافق ہے کیونکہ حدیث میں بھی آگیا اَرْبَع مَّنْ کُنَّ فِیْہِ چار باتیں جس میں ہوں کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا خالص منافق ہے تو فتوی بھی یہی ہے تو اُنہوںنے کہا کہ میرا سلام کہیں اُن سے پھر اُن سے پوچھیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے بارے میں اُن کا کیا کہنا ہے کیا رائے ہے ؟ کیونکہ والد ہیں اور نبی (بھی) ہیں اُن سے آکر جھوٹ بول لیں، جھوٹا وعدہ کیا ،لے گئے ،آکر جھوٹا بیان دیا کہ بھیڑیے نے کھا لیا بہر حال جتنی بھی چیزیں اِس میں آرہی ہیں وہ سب اُنہوں نے کی تھیں تو وہ منافق رہے یا مومن تھے تو حسنِ بصری رحمة اللہ علیہ سے اُنہوں نے جاکر یہ سلام کے بعد پیغام دیا تو اُنہوں نے رُجوع کر لیا خوش بھی ہوئے(کیونکہ) نفسانیت سے نہیںتھی یہ بات بلکہ سچ مچ اور علمی بات تھی جب اُنہیں یہ پہنچی تو اِس سے وہ خوش ہوئے۔