ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
ہوتے ہیں اور نماز اَدا کرتے ہیں ۔ وہ دیکھ رہا تھا ایک طرف نبی علیہ السلام کا تخت ہے چار پائی ہے جس میں نبی علیہ السلام کے پاس وفود آتے ہیں ملکی اور غیر ملکی اور آپ اُن کی گفتگو سن رہے ہیں اور اُن کے سوالات اور اُن کے معاملات حل کررہے ہیں، ساری دُنیا کی سیاست اِس مسجد کی چھت کے نیچے کررہے ہیں نبی علیہ الصلوة والسلام پھراُس نے دیکھا کہ لشکر کے جو جرنیل ہیں کمانڈر، رسول اللہ ۖ نے جو مقرر فرما رکھے ہیں وہ آکر آپ سے جہادی اور جنگی ہدایات لے رہے ہیں اور آکر کار گزاریاں بیان کرتے ہیں، آپ ہدایات دے کر اُن کو روانہ کر رہے ہیں یہ منظر بھی وہ دیکھ رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ اِس چھت کے نیچے جیل خانہ بھی ہے وہیں میں قید بھی ہوں، اِسی چھت کے نیچے عبادت خانہ بھی ہے جہاں پانچ وقت کی نماز بھی ہورہی ہے، اِسی چھت کے نیچے سفارت خانہ بھی ہے جہاں دُنیا کے سفارتی اُمور طے ہو رہے ہیں، اِسی چھت کے نیچے سیاست بھی ہو رہی ہے، اِسی چھت کے نیچے سارے جرنیل بیٹھتے ہیں اور رسول اللہ ۖ جوسالار ِ اعظم ہیں اُنہیں ہدایات دے رہے ہیں اوربھیج رہے ہیں اور اِسی چھت کے نیچے اَمَرْ بِالْمَعْرُوْف اور نَہِیْ عَنِ الْمُنْکرْ بھی ہو رہا ہے، اِسی چھت کے نیچے قاضی القضاة محمد رسول اللہ ۖ نے سپریم کورٹ قائم کی ہے وہاں بس آخری اور قطعی فیصلہ ہوتا ہے اور صحابہ کرام بسرو چشم قبول کرتے ہیں، کوئی اِنکار نہیں کرتا۔ یہ منظر وہ دیکھ رہا ہے سارے مناظر اُس کے سامنے ہیں۔ اُس کو کھانا کھلایا جاتا ہے تو کھول کے کھلایا جاتا ہے جب اُسے پیشاب کا تقاضا ہوتا ہے تووہ پورا کیا جاتا ہے، پاکستان کی جیل کا منظر مجھے کسی نے بتایا وہاں چھوٹی سی جگہ میں ڈیڑھ سو قیدی اور ہر قیدی کو یہ حکم تھا کہ ڈھائی منٹ میں بیت الخلاء سے باہر آجائے، اگر ڈھائی منٹ سے اُوپر کسی قیدی کو ہوتے تھے تواُس کی سزا یہ ہوتی تھی کہ اُسے باہر نکال کر سر کے بل کھڑا کر دیا جاتا تھا، ڈھائی منٹ میں فراغت ممکن نہیں ہے لیکن یہ اُصول تھا، یہاں مسلمان مسلمان کو یہ سزا دے رہا ہے وہاں مسلمان کافر کے ساتھ حسن ِ سلوک کر رہا ہے۔ اُس کی اَب ضرورتیں بھی پوری ہو رہی ہیں اور ساری دُنیا کا نظام وہ چلتا ہوا دیکھ رہا ہے، وہ پرو پیگنڈہ وہ باتیں جو