ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
جن کو آپ نے کمانڈو ایکشن کے لیے بھیجا اور وہ جب گئے تو کامیاب کار روائی کرکے واپس آئے اور وہاں کے ایک سردار ثماثہ بن اثال کو قید کر کر، گرفتار کر کے لے آئے۔ آج کی زبان میں اِسے کہا جاتا ہے کہ بہت بڑی دہشت گردی ہے، ایک زندہ اِنسان کو گرفتار کر کے اُٹھالے گئے لیکن حضرت محمد رسول اللہ ۖ نے اِس کار روائی کے لیے صوفیائِ کرام کی ٹیم بھیجی جو صوفیاؤں کے بھی سردار یعنی صحابہ کرام، آج جوکوئی صوفی ہے تو اُن کی جوتیوں کے طفیل ،آج اگر کوئی عابد زاہد ہے تو اُن کی جوتیوں کے طفیل، اگر کوئی مفتی اورفقیہ ہے تو اُن کی جوتیوں کے طفیل۔ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ١ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں اِن میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔ نبی علیہ السلام نے اُس وقت اعلان کیا۔ اَدنیٰ درجے کا صحابی بھی بعد میں آنے والے جتنے بھی اَقطاب و اَبدال ہیں وہ اُس کی جوتی کی خاک کے برابر بھی نہیں، یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اُن اہل اللہ کی جماعت کو رسول اللہ ۖ نے روانہ کیا اور اُنہوں نے چھاپہ مارا اور اُس کو اُٹھاکر نبی علیہ السلام کی مسجد میں لائے ،وہ کافر تھا بڑا سردار تھا اُسے لا کر ستون سے باندھ دیا، باقاعدہ جیل نہیں تھی ،حکومت قائم ہو چکی تھی ،نبی علیہ السلام حکومت قائم فر ماچکے تھے جس کا دَبدبہ پورے عرب پر، عرب لرز رہا تھا اُس کے دبدبے سے لیکن نبی علیہ السلام نے جیل قائم نہیں کی، جیل خانہ نہیں ہے ۔ کابل کا سقوط ہوتا ہے اَمریکی فوجیں آتی ہیں سب سے پہلے جیل خانہ بنتا ہے، اُس کے لیے سامان جہازوں میں بھر کر آرہا ہے اور قندھار میں بنا اور فلاں جگہ بنا اور فلاں جگہ بنا، بہت جگہ جیل خانے بنائے۔ حضرت محمد رسول اللہ ۖ نے اَبھی تک کوئی جیل خانہ نہیں بنایا ،کہتے ہیں کہ اِسلام میں دہشت گردی ہے۔ اگراِسلام میں دہشت گردی ہو توسب سے پہلے جیل خانہ کی بھی ضرورت ہوتی، کوڑے مارنے کے لیے جلَّادکی ضرورت ہوتی، چھترول کرنے کے لیے ...... کی ضرورت پڑتی۔ اَب اِدھر لائے تو قید کہاں کریں ؟ فرمایا مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دو۔ اَب اُسے باندھ کے چھوڑ دیا، وہ سر دار دیکھ رہا ہے نبی علیہ الصلوة والسلام تشریف لائے پوچھا مَا عِنْدَکَ یَاثُمَامَةُ اے ثمامہ ! ١ مشکوة شریف کتاب المناقب رقم الحدیث ٦٠١٨