ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2014 |
اكستان |
|
اُن کی خدمت کرتا ہے اُنہیں دین کے مسائل بتاتا ہے جب کسی وقت سیاست پر بیان شروع کرتا ہے تو مسجد کے کسی کونے سے آواز آتی ہے کہ '' مولوی صاحب ! اِس موضوع پر بات نہ کریں یہ مسجد ہے ،یہ سیاسی بات نہ کریں '' نماز پڑھنے والا، اِس کے پیچھے جو نماز پڑھتا ہے، اُس پر اِس کا اَدب و اِحترام کرنا واجب ہے کہ اُس کا اِمام ہے یہ اُس کا مذہبی پیشوا ہے یہ اُس کا مذہبی مقتدا ہے لیکن جب سیاست کی بات آتی ہے تو یہ مقتدی اُسے کہتا ہے کہ '' تم میری اِقتدا کرو میں تمہاری قیادت کروں گا، تم میرے قائد نہیں ہو، تم میرے قائد صرف نماز میں ،روزے میں، حج میں، زکوة میں، پاکی ناپاکی میں، زکوة کے کچھ مسائل میں، اِس میں تو ٹھیک ہے لیکن سیاست نہیں کیونکہ یہ مسجد اللہ کا گھر ہے ہم مذہبی فریضے کے لیے آئے ہیں مذہبی فریضہ یہاں اَدا کر رہے ہیں لہٰذا یہاں صرف مذہبی بات ہو ،سیاسی بات نہ ہو۔ '' جب یہ بات کہتا ہے تو دُوسرا بھی اِس کی تائید کرتا ہے تیسرا بھی اِس کی تائید کرتا ہے، سوائے دو چار کے سب اِس کی تائید کرتے ہیں اور وہ مجبور ہوتا ہے کہ اپنی بات کو محدود کرے، اَب یہ نمازی بہت اچھے عنوان سے کہہ رہا ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے اور مسجد ہے یہ مذہبی جگہ ہے یہاں سیاسی چیز نہیں ہونی چاہیے لیکن اگر وہ ایسی سیاسی بات کرے کہ جس میںکافروں کے سیاسی اُصول بتلائے تو پھر تو اُس کی روک ٹوک مناسب ہے لیکن اگر وہ کافروں کے سیاسی اُصول نہیں بتلا رہا اِسلامی اُصول بتلا رہا ہے اور یہ بتلا رہا ہے کہ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو حضرت محمد رسول اللہ ۖ نے جو نظام قائم کیا وہ کیسے قائم ہوتا۔ نبی علیہ السلام نے ایک دفعہ ایک دستہ روانہ فرمایا چھاپہ مار کا ر روائی کے لیے کمانڈو ایکشن کے لیے، اَب جو چھاپہ مار کار روائی کانام آتا ہے تو چاق و چوبند سپاہی کا تصور آئے گا اُس کے بارے میں یہ بھی آئے گا کہ وہ سپاہی ہے فوجی ہے پھرتی سے دوڑ سکتا ہے چل سکتا ہے مکے چلا سکتا ہے وہ ولی اللہ نہیں ہوسکتا ۔لیکن وہ تو صحابہ کی جماعت تھی وہ سارے صوفیاء ِکرام کی جماعت تھی اور اہل اللہ کی جماعت تھی