(مستحبات الوضوئ)
(١٤) قال (القدوری ) و یستحب للمتوضی ان ینوی الطھارة )
!کیف الطھور ؟ .....ثم غسل رجلیہ ثلاثا ثلاثا ،ثم قال : ھکذا الوضوء ،فمن زاد علی ھذا او نقص فقد أساء و ظلم ،او ظلم و أساء ۔(ابوداود شریف ، باب الوضوء ثلاثاثلاثا ،ص ٢٠ ،نمبر ١٣٥ )اس حدیث میں صاحب ھدایہ کا جملہ ہے ۔
لغت :یضاعف : ضعف سے مشتق ہے۔ دو گنا کر نا ۔تعدی : حد سے گزرنا ،زیادتی کر نا ۔و الوعید لعدم روئیتہ سنة : ظلم کی وعید اس وقت ہے جب تین مرتبہ دھونے کو سنت نہ سمجھے ۔
( مستحبات وضو کا بیان )
ضروری نوٹ : مستحب اس کو کہتے ہیں کہ کرنے پر ثواب دیا جائے اور نہ کرنے پر کوئی عتاب نہ ہو۔ماتن نے نیت کرنا، پورے سرکا مسح کرنا، ترتیب سے وضوء کرنااور پے درپے وضو کرنا مستحب لکھا ہے۔ حالانکہ دوسری کتابوں میں ان کو سنت کہا ہے(کما فی الہدایہ) اور احادیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ چار باتیں سنت ہیں۔ متقدمین کے یہاں سنت کو بھی مستحب کہہ دیا کرتے تھے اس اعتبار سے ماتن نے ان چاروں کو مستحب کہا ہے۔ البتہ دائیں جانب سے شروع کرنا اور گردن کا مسح کرنا مستحب ہے۔
ترجمہ :(١٤) وضو کرنے والے کے لئے سنت ہے کہ پاکی کی نیت کرے ۔
وجہ : سنت ہونے کی وجہ یہ حدیث ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ علی المنبر یقول سمعت رسول اللہ ۖ یقول انما الاعمال بالنیات وانمالکل امرء ما نوی (ب)(بخاری شریف ، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ۖ ص ٢ نمبر١)اعمال کے ثواب کا دارومدار یا اعمال کے صحیح ہونے کا دارومدار نیت پر ہے۔ بغیر نیت کے وضو کا ثواب نہیں ہوگا۔ اس لئے وضو میں وضو کی نیت کرنا سنت ہے۔ وضو میں نیت کرنا فرض اس لئے نہیں ہے کہ پانی کو خود بخود پاک کرنے والا قرار دیا ہے چاہے نیت کرے یا نہ کرے۔
دلیل (ا) آیت ہے انزلنا من السماء ماء طہورا (آیت ٤٨ سورة الفرقان ٢٥)(٢) حدیث میں ہے قال رسول اللہ