(فصل فی الغسل)
(٣٠) و فرض الغسل، المضمضة، والاستنشاق، وغسل سائرالبدن ) ١ وعندالشافعی ھماسنتان فیہ،لقولہ علیہ السلام:عشرمن الفطرة،ای من السنةوذکرمنھا المضمضة، و الاستنشاق، و لھذا کانا سنتین فی الوضوئ۔
( غسل کے فرائض کا بیان )
ترجمہ: (٣٠) غسل کے فرائض (١) کلی کرنا (٢) ناک میں پانی ڈالنا (٣) اورپورے بدن کو دھونا ہے۔
تشریح : اصل میں پورے بدن پر پانی پہنچانا ہے کہ ایک بال برابر بھی خشک نہ رہ جائے۔اور منہ اور ناک کے حصے بھی بدن کے باہر کے حصے شمار کئے جاتے ہیں۔اس لئے کلی کرکے اور ناک میں پانی ڈال کر وہاںتک پانی پہنچانا ضروری ہے۔
وجہ : (١) آیت میں ہے وان کنتم جنبا فاطھروا (آیت ٦ ، سورة المائدة ٥)آیت میں ہے کہ جنابت کی حالت میں خوب خوب پاکی حاصل کرواور یہ اس وقت ہو سکتا ہے کہ کلی کرکے اور ناک میں پانی ڈال کر ہر جگہ پانی پہنچایا جائے۔اس لئے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میں فرض ہیں(٢) حدیث میں ہے عن علی قال ان رسول اللہ ۖ قال من ترک موضع شعرہ من جنابة لم یغسلھافعل بھا کذا کذا من النار(ابو داؤد شریف، باب فی الغسل من الجنابة ص ٣٨ نمبر ٢٤٩) معلوم ہوا کہ ایک بال برابر بھی غسل میں خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا اسی لئے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔(٣) عن ابی ھریرة ان النبی ۖ جعل المضمضة والاستنشاق للجنب ثلاثا فریضة (سنن دار قطنی، باب ما روی فی مضمضة والاستنشاق فی غسل الجنابة ج اول ص ١٢١ نمبر ٤٠٣) اس حدیث میں ہے کہ جنبی پر کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے ۔
ترجمہ: ١ اور امام شافعی کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہیں حضور ۖ کے قول کی وجہ سے کہ دس باتیں فطرت میں سے ہیں ،یعنی سنت ہیں اور ان باتوں میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا بھی ذکر ہے (٢) اور اسی لئے یہ دونوں وضومیں سنت ہیں۔(موسوعة نمبر٥٣٥ )۔
وجہ : (١)اما م شافعی کی پیش کردہ حدیث یہ ہے۔ عن عائشة قالت : قال رسول اللہ ۖ : عشر من الفطرة قص الشارب ،و اعفاء اللحیة ،و السوک ،و استنشاق الماء ،وقص الاظفار ،و غسل البراجم ،و نتف الابط ،و حلق العانة ،و انتقاص الماء ،قال زکریا قال مصعب : و نسیت العاشرةالا ان تکون المضمضة ۔(مسلم شریف ،باب خصال الفطرة ،ص ١٣٠ نمبر ٢٦١ ٦٠٤ ،ابوداود شریف ،باب السواک من الفطرة ،ص ٩ نمبر ٥٣ ) اس حدیث سے امام شافعی غسل میں بھی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت قرار دیتے ہیں (٢)۔ دار قطنی میں دوسری حدیث ہے۔ سن رسول اللہ