(فصل فی القراء ة)
(٣١٣) قال یجہر بالقراء ة فی الفجر والرکعتین الاوّلیین من المغرب والعشاء ان کان اماما ویخفی فی الاخریین)
(فصل فی القراء ة)
ترجمہ: (٣١٣) جہری قرأت کرے فجر میں ، مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں اور عشا کی پہلی دونوں رکعتوں میں اگر امام ہو۔ اور قرأت پوشیدہ کرے گا پہلی دو کے بعد میں ۔
تشریح: فجر کی دونوں رکعتوں میں ،مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں اور عشا کی پہلی دو رکعتوں میں قرأت زور سے پڑھے گا۔اور مغرب کی تیسری رکعت میں اور عشاء کی دوسری دو رکعتوں میں قرأت آہستہ پڑھے گا۔
وجہ: (١) عن انس أن جبرئیل اتی النبی ۖ بمکة حین زالت الشمس و أمرہ أن یوذن للناس بالصلوة حین فرضت علیھم ، فقام جبرئیل امام النبی ۖ و قامو الناس خلف رسول اللہ ۖ قال : فصلی أربع رکعات لا یجھر فیھا بقرأة....ثم امھل حتی اذا دخل وقت العصر ، صلی بھم أربع رکعات لا یجھر فیھا بالقرأة ....ثم امھل حتی اذا وجبت الشمس صلی بھم ثلاث رکعات یجھر فی رکعتین بالقرأة و لا یجھر فی الثالثة ، ثم امھلہ حتی اذا ذھب ثلث اللیل صلی بھم أربع رکعات یجھر فی الاولیین بالقرأة ، و لا یجھر فی الاخریین بالقرأة ، ثم امھل حتی اذا طلع الفجر صلی بھم رکعتین یجھر فیھما بالقرأة ۔ ( دار قطنی ، باب امامة جبرئیل ، ص ٢٦٨ ، نمبر ١٠١١ ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر دونوں رکعتوں میں جہری قرأت کرے اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں جہری قرأت کرے اور مغرب کی تیسری رکعت میں اور عشا کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سری قرأت کرے ۔ (٢)حدیث میں عن ابن عباس قال انطلق النبی ۖ... وھو یصلی باصحابہ صلوة الفجر فلما سمعوا القرآن استمعوا لہ۔(بخاری شریف ، باب الجھر بقراء ة صلوة الصبح ص ١٠٦ نمبر ٧٧٣ مسلم شریف ، باب الجھر بالقراء ة فی الصبح والقراء ة علی الجن ص ١٨٤ نمبر ١٠٠٦٤٤٩) اس باب میں جنات کے سامنے فجر کی نماز میں جہری قرأت کرنے کی کئی حدیثیں ذکر کی گئی ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی نماز میں جہری قرأت ہے اگر خود امام ہو تو۔ (٣)مغرب میں جہری قرأت کی دلیل یہ ہے ۔جبیر بن مطعم عن ابیہ قال سمعت رسول اللہ ۖ قرء فی المغرب بالطور ۔(بخاری شریف ، باب الجہر فی المغرب ص ١٠٥ نمبر٧٦٥) سمعت کے لفظ سے پتہ چلا کہ آپۖ نے قرأت جہری کی ہے تب ہی تو راوی نے سورۂ طور سنی۔ (٤)عشا کی نماز میں جہری قرأت کرنے کی دلیل یہ حدیث ہے سمعت البراء ان النبی ۖ کان فی سفر فقرء فی