(٣٦) وکذا النفاس بالاجماع )
(٣٧) و سن رسول اﷲ الغسل للجمعة، و العیدین، و عرفة، والاحرام) ١ صاحب الکتاب نص علی السنیة و قیل ھذہ الاربعة مستحبة، وسمی محمد الغسل فی یوم الجمعة حسناً فی الاصل
استحباب استعمال المغتسلة من الحیض فرصة من مسک نمبر ٧٤٨٣٣٢)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ پر غسل فرض ہے۔
ترجمہ: (٣٦)نفاس : میں بھی غسل واجب ہے تمام ائمہ کے نزدیک ۔
وجہ : کیونکہ نفاس بھی حیض کے درجے میں ہے اس لئے حیض ہی کے تمام دلائل سے نفاس میں بھی غسل کرنا لازم ہوگا (١) اور ایک حدیث مستدرک حاکم نے ذکر کی ہے جو کنز العمال میں ہے عن معاذ عن النبی قال اذا مضی للنفساء سبع ثم رأت الطہر فلتغتسل ولتصل (مستدرک للحاکم، کتاب الطہارة ،ج اول، ص ٢٨٤، نمبر ٦٢٦سنن للبیھقی ،باب النفاس ص ٥٠٥،نمبر ١٦١٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفساء بھی خون ختم ہونے کے بعد غسل کرے گی۔
( سنت غسل کا بیان )
ترجمہ: (٣٧) سنت قرار دیا حضورۖ نے غسل کو (١) جمعہ کے لئے (٢) عیدین کے لئے (٣) احرام کے لئے (٤) عرفہ کے لئے۔ان دنوں میں غسل کرنا سنت ہے ۔
وجہ : (١)حدیث میں ہے عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہ ۖ قال غسل یوم الجمعة واجب علی کل محتلم(ابوداؤد شریف ، باب فی الغسل یوم الجمعة ص ٥٥ نمبر ٣٤١مسلم شریف باب وجوب غسل الجمعة ،ص ٢٧٩نمبر ٨٤٦ ٥٧ ١٩) (٢) عن سمرة قال قال رسول اللہ ۖ من توضأ فبھا ونعمت ومن اغتسل فھو افضل(ابوداؤد شریف ، باب فی الرخصة فی ترک الغسل یوم الجمعة ص ٥٧ نمبر ٣٥٤ مسلم شریف،کتاب الجمعة، باب وجوب غسل الجمعة ص ٢٧٩ نمبر ٨٤٦ ١٩٥٩، مسلم شریف، باب فصل من استمع وانصت فی الخطبة،ص ٢٨٣ ،نمبر ١٩٨٨٨٥٧) ان دونوں قسم کی احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن پہلے غسل واجب تھا اب منسوخ ہو کر سنت باقی رہا ۔
ترجمہ: ١ صاحب کتاب ،قدوری نے غسل سنت بتایا ،لیکن کہا گیا ہے کہ یہ چاروں مستحب ہیں۔اور امام محمد نے جمعہ کے دن غسل کو اصل یعنی مبسوط میں حسن کہا ہے ۔
وجہ : ان چاروں مقامات پر غسل سنت ہے جمعة کی دلیل اوپر گزری اور باقی کی دلیل آگے آرہی ہے ۔اور جو حضرات اسکو مستحب کہتے ہیں انکی دلیل یہ حدیث ہے عن سمرة قال قال رسول اللہ ۖ : من توضأ فبھا و نعمت ،و من اغتسل فھو افضل ۔(ابو داود شریف ،باب الرخصة فی تر ک الغسل یوم الجمعة ،ص ٥٧ نمبر ٣٥٤ ترمذی شریف ،باب ما جاء فی الوضوء یوم