(فصل فی النفاس)
(١٥٢)و النفاس ھو الدم الخارج عقیب الولادة) ١ لانہ ما خوذ من تنفس الرحم بالدم، او من خروج النفس، بمعنی الولد، او بمعنی الدم (١٥٣) و الدم الذی تراہ الحامل ابتدائ، او حال ولادتھا قبل خروج الولد استحاضة، وان کان ممتدا )
( نفاس کا بیان )
ترجمہ: (١٥٢) نفاس وہ خون ہے جو بچہ پیدا ہونے کے بعد نکلے۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ نفاس تنفس الرحم بالدم ،سے مشتق ہے ، یا خروج النفس سے مشتق ہے ، جسکا معنی ہے بچے کا نکلنا ، یا خون کا نکلنا ۔
تشریح : اس عبارت میں نفاس کا معنی بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ جملہ تنفس الرحم بالدم سے مشتق ہے ، جسکا ترجمہ ہے رحم نے خون پھینکا ۔ یا یہ مشتق ہے خروج النفس سے ، اور نفس کے دو معنی ہیں خون یا بچہ ، اگر خون لیا جائے تو ترجمہ ہو گا رحم سے خو ن نکلا ، اور اگر بچہ مراد لیا جائے تو ترجمہ ہو گا رحم سے بچہ نکلا ۔ بہر حال نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو بچہ پیدا ہو نے کے بعد رحم سے نکلے ۔
لغت : عقیب : بعد میں، پیچھے
ترجمہ: (١٥٣) وہ خون جوحاملہ عورت شروع میں دیکھے یا عورت جوولادت کی حالت میں دیکھے بچہ نکلنے سے پہلے وہ استحاضہ ہے۔ چاہے خون کی مدت حیض کی مدت جتنی ہو ۔
تشریح: حاملہ عورت حمل کی حالت میں خون دیکھے یا بچہ پیدا ہونے سے پہلے عورت کو جو خون آتا ہے وہ استحاضہ کا خون ہے۔ چاہے وہ خون تین دن سے زیادہ تک آتا رہا ہو ، اور اسکی مدت حیض کی مدت تک ہو پھر بھی وہ خون استحاضہ کا ہی شمار کیا جائے گا ۔
وجہ: (١)کیونکہ نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو بچہ پیدا ہونے کے بعد ہو اور یہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہے۔ اور حیض اس لئے نہیں ہوسکتا کہ وہ خالی رحم سے نکلتا ہے اور یہاں رحم بچہ سے بھرا ہوا ہے(٢) حیض کی جھلیاں کٹ کٹ کرگر تی ہیں تو حیض ہوتا ہے اور بچہ کی حالت میں بچہ کا آنول جھلیوں کے ساتھ چپکا ہوتا ہے اس لئے جھلیاں نہیں کٹ سکے گی اس لئے وہ حیض کا خون نہیں ہے۔اسی طرح بچہ کی وجہ سے رحم کا منہ بند ہے اس لئے نہ حیض آ سکتا ہے اور نہ نفاس۔ اس لئے وہ استحاضہ کا خون ہے۔(٣)اثر میں ہے۔ عن الحسن فی الحامل تری الدم قالا : ھی بمنزلة المستحاضة تغسل کل یوم مرة عند صلوة الظھر ۔ ( مصنف عبد الرزاق ، باب الحامل تری الدم ، ج اول ، ص ٣١٦ ، نمبر ١٢١٠) اس اثر میں ہے کہ حاملہ عورت کا خون استحاضة ہے ، اور چونکہ بچہ پیدا ہو نے سے پہلے پہلے تک حاملہ ہے اسلئے اس وقت بھی جو خون نکلے گا وہ اثر کی بنا پر استحاضة ہو گا ۔