(باب الانجاس وتطھیرھا)
(١٦٠)تطھیرالنجاسة واجب من بدن المصلی، وثوبہ، والمکان الذی یصلی علیہ )
(نجاست ، اور اسکے پاک کرنے کا با ب )
ضروری نوٹ: انجاس نجس کی جمع ہے ناپاکی۔ نجس کی دو قسمیں ہیں نجاست حکمیہ جیسے وضو اور غسل کی ضرورت ہو اور نجاست حقیقیہ جیسے پیشاب اورپاخانہ۔یہاں اسی نجاست حقیقیہ کے احکام کے متعلق بحث ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے وثیابک فطھر(آیت ٤ سورة المدثر٧٤) اور حدیث یہ ہے عن اسماء بنت ابی بکر انھا قالت سألت امرأة رسول اللہ ۖ فقالت یا رسول اللہ ارأیت احدانا اذا اصاب ثوبھا الدم من الحیضة کیف تصنع فقال رسول اللہ اذا اصاب ثوب احداکن الدم من الحیضة فلتقرصہ ثم لتنضحہ بماء ثم لتصل فیہ۔ (بخاری شریف ، باب غسل دم المحیض ص٤٥ نمبر ٣٠٧ ترمذی شریف،باب ماجاء فی غسل دم المحیض من الثوب،ص ٣٥، نمبر ١٣٨)
ترجمہ: (١٦٠) نجاست کوپاک کرنا واجب ہے (١) نماز پڑھنے والے کے بدن سے (٢) اس کے کپڑے سے (٣) اور اس مکان سے جس پر نماز پڑھتے ہیں۔
تشریح: نماز پڑھنے والے کے لئے بدن ، کپڑا اور مکان کا پاک ہونا ضرری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔نجاست حکمیہ سے پاک ہونے کی دلیل تو وضو اور غسل کے ابواب میں گزری اور نجاست حقیقیہ سے پاک ہونے کی دلیل یہ ہے۔
وجہ: (١) نجاست حکمیہ سے پاک ہونا ضروری ہے تو نجاست حقیقیہ۔ مثلا پیشاب، پاخانہ لگا ہو تو اس سے پاک ہونا بدرجۂ اولی ضروری ہوگا۔کیونکہ یہ تو اور بھی زیادہ گندی چیز ہے(٢) بدن پاک ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے سمعت انس بن مالک یقول کان النبی ۖ اذا خرج لحاجتہ اجیء انا وغلام معنا اداوة من ماء یعنی یستنجی بہ۔ (بخاری شریف، باب الاستنجاء بالماء ص ٢٧ نمبر ١٥٠ )،پانی سے استنجا کرنے کی وجہ یہی ہے کہ مصلی کا بدن نجاست حقیقیہ سے پاک ہونا چاہئے۔ کپڑا پاک ہونے کی دلیل اوپر کی آیت ہے وثیابک فطھر اور حدیث میں ہے عن اسماء ابنة ابی بکر ان امرأة سألت النبی ۖ عن الثوب یصیبہ الدم من الحیضة؟ فقال رسول اللہ حتیہ ثم اقرصیہ بالماء ثم رشیہ وصلی فیہ ۔(ترمذی شریف، باب ماجاء فی غسل دم الحیض من الثوب ص٣٥ نمبر ١٣٨) اور مکان پاک ہونے کی شرط کی دلیل یہ حدیث ہے عن ابن عمران النبیۖنھی ان یصلی فی سبعة مواطن فی المزبلة والمجزرة والمقبرة وقارعة الطریق و فی الحمام و فی معاطن الابل و فوق ظہر بیت اللہ ۔(ترمذی شریف ، باب ماجاء فی کراھیة ما یصلی الیہ و فیہ ص ٨١ نمبر ٣٤٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان مقامات پر ناپاکی ہوتی ہے اس لئے ان مقامات پر نماز پڑھنا نا جائز ہے۔