Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 1

320 - 627
(فصل فی الاستنجاء ) 
(١٧٧) الاستنجاء سنة لان النبی علیہ السلام واظب علیہ، و یجوز فیہ الحجر و ما قام مقامہ یمسحہ حتی ینقیہ) 

 (  استنجاء کا بیان  )
ضروری نوٹ :  استنجاء : نجو سے مشتق ہے ، ا سکا ترجمہ ہے پاخانہ ا ور باب استفعال  میں جا کر اسکا تر جمہ ہو گیا پاخانہ صا ف کر نا ۔پاخانہ یا پیشاب پانی سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے اور ڈھیلے سے بھی ، البتہ ڈھیلے سے صاف کر نے کے بعد پانی سے صاف کر نا زیادہ بہتر ہے ، اور دونوں کو نہ ملا سکے تو پانی سے صاف کر نا بہتر ہے ، اور پانی سے بھی صاف نہ کر سکے تو پھر ڈھیلا سے صاف کرے ۔ اگر نجاست درھم کی مقدار سے زیادہ پھیل گئی ہو تو اب ڈھیلے سے صاف کر نا کافی نہیں ہو گا پانی سے دھو نا ہو گا ، کیونکہ درھم کی مقدار تو معاف ہے اس سے زیادہ نہیں ۔درھم کی مقدار معاف ہو نے کی دلیل یہ ہے  ۔عن ابی ھریرة عن النبی ۖقال : تعاد الصلوة من قدر الدرھم من الدم (دار قطنی ، باب قدر النجاسة التی تبطل الصلوة ص ٣٨٥ نمبر ١٤٧٩سنن للبیھقی ، باب ما یجب غسلہ من الدم ، ج اول ، ص ٥٦٦ ، نمبر ٤٠٩٣)  اس حدیث سے معلوم ہوا کہ درہم سے کم ہو تو معاف ہے اور درہم یا اس سے زیادہ ہو تو نماز جائز نہیں ہے۔ 
پانی سے صاف کر نا زیادہ بہتر ہے اسکی دلیل یہ آیت ہے کہ اھل قباء پانی سے دھوتے تھے تو انکی تعریف میں یہ آیت اتری ۔عن ابی ھریرة عن النبی  ۖ قال:نزلت ھذہ الآیة فی اھل قباء (فیہ رجال یحبون أن یتطھروا )آیت ١٠٨ سورة التوبة ٩)قال کانوا یستنجون بالماء فنزلت فیھم ھذہ الآیة ۔( ابو داود شریف ، باب فی الاستنجاء بالماء ،ص ٧، نمبر ٤٤ سنن للبیھقی ، باب الاستنجاء بالماء ، ج اول ص ١٧٠، نمبر ٥١١)   اس حدیث میں ہے کہ پانی سے استنجا ء کر نے کی وجہ سے اھل قبا کی اللہ تعالی نے تعریف کی ہے ۔اسلئے پانی سے دھونا زیادہ بہتر ہے ۔ لیکن چونکہ جنگل اور صحراوں میں انسان کی مجبوری ہو تی ہے اسلئے  پتھر سے بھی صاف کرے تو جائز ہے ۔استنجاء صحیح ہو نے کے لئے تین پتھر ہو نا واجب نہیں ہے اس سے کم میں بھی جائز ہو جائے گا ، البتہ حدیث کی وجہ سے تین پتھر لینا سنت ہے ۔  
ترجمہ: (١٧٧)  استنجاء سنت ہے اسلئے کہ نبی علیہ السلام اس پر ہمیشگی کی ہے اور اس میں پتھر بھی جائز ہے اور جو اسکے قائم مقام ہو اسکو اتنا پونچھے کہ مقام صاف کردے ۔ 
تشریح:  اس عبارت میں تین باتیں بتائیں ، ایک تو یہ کہ استنجاء سنت ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ حضور ۖ نے اس پر ہمیشگی کی ہے اور ہمیشگی کی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن عائشة قالت : ما رأیت رسول اللہ  ۖ خرج من غائط قط الا مس مائً ۔( ابن ماجہ شریف ، باب الاستنجاء 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 5 0
2 کتاب الطھارات 52 1
3 سنن الطھارة 62 2
4 مستحبات وضو کا بیان 71 3
5 نواقض وضو کا بیان 79 11
6 فصل فی الغسل 102 2
7 غسل کے فرائض کا بیان 102 6
8 غسل واجب ہونے کے اسباب 107 6
9 سنت غسل کا بیان 112 6
11 فصل فی نواقض الوضوئ 79 3
12 باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء و ما لا یجوز بہ 117 2
13 پانی کے احکام 117 12
14 بڑے تالاب کا حساب ایک نظر میں 130 13
15 گول چیز ناپنے کافارمولہ 132 13
17 فصل فی البیر 155 12
18 کنویں کے مسائل 155 17
19 فصل فی الآسار 171 12
20 فصل جوٹھے اور اسکے علاوہ کے بارے میں 171 19
21 باب التیمم 193 2
23 باب المسح علی الخفین 227 2
24 باب الحیض و الاستحاضة 251 2
25 حیض کا بیان 251 24
26 فصل فی المستحاضة 270 24
27 فصل فی النفاس 276 24
28 نفاس کا بیان 276 27
29 باب الانجاس وتطھیرھا 283 2
30 نجاست ، اور اسکے پاک کرنے کا با ب 283 29
31 ہر ایک کے ناپاک ہو نے کی دلیل 297 29
33 درھم کی قسمیں تین ہیں 300 29
34 درھم کا حساب 300 29
36 فصل فی الاستنجاء 320 2
37 استنجاء کا بیان 320 36
38 کتاب الصلوة 329 1
39 باب المواقیت 329 38
40 فصل اوقات مستحب 342 39
41 فصل فی الاوقات التی تکرہ فیھا الصلوة 351 39
42 باب الاذان 362 38
43 باب شروط الصَّلٰوة التی تتقدمہا 385 38
44 باب صفة الصلوة 413 38
45 فصل فی القراء ة 496 44
46 باب الامامة 523 38
47 جماعت کا بیان 523 46
49 باب الحدث فی الصلوة 569 38
50 باب مایفسد الصلوٰة وما یکرہ فیہا 601 38
Flag Counter