(فصل فی الاستنجاء )
(١٧٧) الاستنجاء سنة لان النبی علیہ السلام واظب علیہ، و یجوز فیہ الحجر و ما قام مقامہ یمسحہ حتی ینقیہ)
( استنجاء کا بیان )
ضروری نوٹ : استنجاء : نجو سے مشتق ہے ، ا سکا ترجمہ ہے پاخانہ ا ور باب استفعال میں جا کر اسکا تر جمہ ہو گیا پاخانہ صا ف کر نا ۔پاخانہ یا پیشاب پانی سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے اور ڈھیلے سے بھی ، البتہ ڈھیلے سے صاف کر نے کے بعد پانی سے صاف کر نا زیادہ بہتر ہے ، اور دونوں کو نہ ملا سکے تو پانی سے صاف کر نا بہتر ہے ، اور پانی سے بھی صاف نہ کر سکے تو پھر ڈھیلا سے صاف کرے ۔ اگر نجاست درھم کی مقدار سے زیادہ پھیل گئی ہو تو اب ڈھیلے سے صاف کر نا کافی نہیں ہو گا پانی سے دھو نا ہو گا ، کیونکہ درھم کی مقدار تو معاف ہے اس سے زیادہ نہیں ۔درھم کی مقدار معاف ہو نے کی دلیل یہ ہے ۔عن ابی ھریرة عن النبی ۖقال : تعاد الصلوة من قدر الدرھم من الدم (دار قطنی ، باب قدر النجاسة التی تبطل الصلوة ص ٣٨٥ نمبر ١٤٧٩سنن للبیھقی ، باب ما یجب غسلہ من الدم ، ج اول ، ص ٥٦٦ ، نمبر ٤٠٩٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ درہم سے کم ہو تو معاف ہے اور درہم یا اس سے زیادہ ہو تو نماز جائز نہیں ہے۔
پانی سے صاف کر نا زیادہ بہتر ہے اسکی دلیل یہ آیت ہے کہ اھل قباء پانی سے دھوتے تھے تو انکی تعریف میں یہ آیت اتری ۔عن ابی ھریرة عن النبی ۖ قال:نزلت ھذہ الآیة فی اھل قباء (فیہ رجال یحبون أن یتطھروا )آیت ١٠٨ سورة التوبة ٩)قال کانوا یستنجون بالماء فنزلت فیھم ھذہ الآیة ۔( ابو داود شریف ، باب فی الاستنجاء بالماء ،ص ٧، نمبر ٤٤ سنن للبیھقی ، باب الاستنجاء بالماء ، ج اول ص ١٧٠، نمبر ٥١١) اس حدیث میں ہے کہ پانی سے استنجا ء کر نے کی وجہ سے اھل قبا کی اللہ تعالی نے تعریف کی ہے ۔اسلئے پانی سے دھونا زیادہ بہتر ہے ۔ لیکن چونکہ جنگل اور صحراوں میں انسان کی مجبوری ہو تی ہے اسلئے پتھر سے بھی صاف کرے تو جائز ہے ۔استنجاء صحیح ہو نے کے لئے تین پتھر ہو نا واجب نہیں ہے اس سے کم میں بھی جائز ہو جائے گا ، البتہ حدیث کی وجہ سے تین پتھر لینا سنت ہے ۔
ترجمہ: (١٧٧) استنجاء سنت ہے اسلئے کہ نبی علیہ السلام اس پر ہمیشگی کی ہے اور اس میں پتھر بھی جائز ہے اور جو اسکے قائم مقام ہو اسکو اتنا پونچھے کہ مقام صاف کردے ۔
تشریح: اس عبارت میں تین باتیں بتائیں ، ایک تو یہ کہ استنجاء سنت ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ حضور ۖ نے اس پر ہمیشگی کی ہے اور ہمیشگی کی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن عائشة قالت : ما رأیت رسول اللہ ۖ خرج من غائط قط الا مس مائً ۔( ابن ماجہ شریف ، باب الاستنجاء