تجزیٔ عنہ ۔(ابوداؤد شریف ،باب الاستنجاء بالاحجار ص٧ نمبر ٤٠ نسائی شریف ، الاجتزاء فی الاستطابة بالحجارة دون غیرھا ، ص ٦ نمبر ٤٤) اس حدیث میں ہے کہ پاخانے کے مقام کو صرف پتھر سے صاف کر دینے سے اسکو پاک قرار دیا جائے گا حالآنکہ پتھر سے صاف کر نے سے نجاست بالکل ختم نہیں ہو گی صرف نجاست کم ہو جائے گی اسکے با وجود اسکے ساتھ نماز پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ پیخانہ کے مقام کی مقدار جو درھم کے برابر ہے معاف ہے اس سے زیادہ لگی ہو تو دھو نا پڑے گا ، اسکے بغیر نماز جائز نہیں ہو گی ۔ حدیث میں اسکی تصریح ہے۔ عن ابی ھریرة عن النبی ۖقال : تعاد الصلوة من قدر الدرھم من الدم (دار قطنی ، باب قدر النجاسة التی تبطل الصلوة ص ٣٨٥ نمبر ١٤٧٩سنن للبیھقی ، باب ما یجب غسلہ من الدم ، ج اول ، ص ٥٦٦ ، نمبر ٤٠٩٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ درہم سے کم ہو تو معاف ہے اور درہم یا اس سے زیادہ ہو تو نماز جائز نہیں ہے۔
(ہر ایک کے ناپاک ہو نے کی دلیل )
نوٹ: خون ،انسانی پیشاب،پاخانہ کے نجاست مغلظہ ہو نے کی دلیل یہ حدیث ہے یا عمار انما یغسل الثوب من خمس من الغائط والبول والقیء والدم والمنی (دار قطنی، باب نجاسة البول والامر بالتنزہ منہ والحکم فی بول مایؤکل لحمہ ج اول ص ١٣٤ نمبر ٤٥٢)
اسکے علاوہ بھی حیض کے خون کے بارے میں احادیث گزری جس میں خون کو دھونے کا حکم تھا جس سے معلوم ہوا کہ خون نجاست مغلظہ ہے ۔
شراب کے ناپا ک ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ عن ابی ثعلبة الخشنی انہ سأل رسول اللہ قال انا نجادر اھل الکتاب وھم یطبخون فی قدورھم الخنزیر و یشربون فی آنیتھم الخمر فقال رسول اللہ ۖ ان وجدتم غیرھا فکلوا فیھا واشربوا وان لم تجدو غیرھا فارحضوھا بالماء وکلوا واشربوا۔(ابو داؤد شریف، باب فی استعمال آنیة اہل الکتاب ج ثانی ص ١٨٠ نمبر ٣٨٣٩) اس حدیث میں آپۖ نے فرمایا کہ جس برتن میں شراب پیتے ہوں اگر اس کے علاوہ کوئی برتن نہ ملے تو اس کو دھو کر اس میں پیو، دھونے کا حکم اس بات پر دال ہے کہ شراب ناپاک ہے اس لئے شراب والے برتن کو دھونا پڑیگا تب پاک ہوگا۔انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان (آیت٩ ، سورة المائدة