( فصل اوقات مستحب)
(١٩٢) ویستحب الاسفار بالفجر) ا لقولہ ں اسفروا بالفجر فانہ اعظم للاجر ٢ وقال الشافعی یستحب التعجیل فی کل صلوٰة والحجة علیہ مارویناہ وما نرویہ
ان یطلع الفجر ۔ (ترمذی شریف، باب ما جاء فی فضل الوتر ص ١٠٣ نمبر ٤٥٢ ابو داؤد شریف ،ابواب الوتر،باب استحباب الوتر ص ٢٠٨ نمبر ١٤١٨) اس حدیث میں ہے کہ فرض نماز پر ایک اور نماز کا اضافہ کیا اور وہ وتر ہے ، تو یقینی بات ہے کہ وہ بھی فرض ہی ہو گی ، جسکو ہم واجب کہتے ہیں ۔اسلئے وتر ہمارے نزدیک واجب ہے ۔
( فصل اوقات مستحب )
ترجمہ: (١٩٢) فجر میں اسفار کرنا مستحب ہے۔
ترجمہ: ١ حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے کہ : فجر کو اسفار کرکے پڑھو اسلئے کہ اس میں اجر زیادہ ہے ۔
تشریح :فجر کا اصل وقت تو طلوع صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے ۔لیکن مستحب یہ ہے کہ اسفار کرکے فجر کی نماز شروع کرے ۔
وجہ: (١) اوپر کی حدیث یہ ہے ۔ عن رافع بن خدیج قال سمعت رسول اللہ یقول اسفروا بالفجر فانہ اعظم للاجر۔ (ترمذی شریف، باب ما جاء فی الاسفار بالفجر ص ٤٠ نمبر ١٥٤ ابو داؤد شریف، باب وقت الصبح ص ٦٧ نمبر ٤٢٤) اس میں الفاظ یوں ہیں اصبحوا بالصبح اس سے معلوم ہوا کہ فجر کو اسفار کرکے پڑھنا مستحب ہے۔(٢) جماعت بڑی ہوگی ورنہ لوگ غلس اور اندھیرے میں کم آئیںگے اور جماعت کی قلت ہوگی۔
ترجمہ: ٢ اور امام شافعی نے فرمایا کہ ہر نماز میں جلدی کر نا مستحب ہے ۔ اور ان پر وہ حدیث حجت ہے جو ہمنے روایت کہ اور جو روایت کریں گے ۔
فائدہ: امام شافعی اور دیگر ائمہ کے نزدیک ہر نماز کو اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے۔ اور فجر کو غلس اور اندھیرے میں پڑھنا مستحب ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے ان عائشة اخبرتہ قالت کن نساء المؤمنات یشھدن مع رسول اللہ ۖ صلوة الفجر متلفعات بمروطھن ثم ینقلن الی بیوتھن حین یقضین الصلوة لا یعرفھن احد من الغلس۔