١ لان النبی علیہ السلام توضأ مرة مرة وقال ھٰذا وضوء لا یقبل اللہ تعالی الصلٰوة الا بہ، و توضأ مرتین مرتین و قال ھٰذا وضوء من یضاعف اللہ لہ الاجر مرتین، توضأ ثلاثا ثلاثا و قال ھٰذا وضوئی و وضوء الانبیاء من قبلی ٢ فمن زاد علی ھٰذا او نقص فقد تعدی و ظلم، و الوعید لعدم روئیتہ سنة۔
تشریح : تمام اعضاء معسولہ کو تین تین مرتبہ دھونا بھی سنت ہے ۔اور ایک ایک مرتبہ دھونا فرض ہے ۔
وجہ : (١)ا تین مرتبہ دھونے سے یقین ہو جائے گا کہ کوئی جگہ بال برابر بھی خشک نہیں رہ گئی۔ (٢)حدیث میں ہے رأی عثمان بن عفان دعاباناء فافرغ علی کفیہ ثلث مرار فغسلھما ثم ادخل یمینہ فی الاناء فمضمض واستنثر ثم غسل وجھہ ثلاثا ویدیہ الی المرفقین ثلث مرار، ثم مسح برأسہ، ثم غسل رجلیہ ثلث مرار الی الکعبین ثم قال قال رسول اللہ ۖ من توضأ نحو وضوئی ھذا ثم صلی رکعتین لا یحدّث فیھما نفسہ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ۔ (بخاری شریف ، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا ص ٢٧ نمبر ١٥٩ ابوداؤد شریف ، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا ص ٢٠ نمبر ١٣٥)اس حدیث میں ہے کہ اعضاء تین تین مرتبہ دھویا،جس سے معلوم ہوا کہ تین تین مرتبہ دھونا سنت ہے۔
ترجمہ : ١ اسلئے کہ حضور ۖ نے ایک ایک مرتبہ وضوء کیا اور فرمایا یہ کم سے کم درجے کا وضوء ہے اسکے بغیر اللہ تعالی نماز قبول نہیں کرتے ۔اور دو دو مرتبہ وضوء کیا اور فرمایا یہ ایسا وضوء ہے کہ اللہ دو گنا اسکو اجر دیتے ہیں اور تین تین مرتبہ وضوء کیا اور فرمایا یہ میرا وضوء ہے اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام کا وضوء ہے ۔صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔عن ابی بن کعب : ان رسول اللہ ۖ دعا بماء ٍ فتوضأ مرة مرة ،فقال : ھذا وظیفة الوضوء ۔او قال : وضوء من لم یتوضأہ لم یقبل اللہ لہ صلاة ۔ثم توضأ مرتین مرتین ثم قال : ھذاوضوء من توضأ ہ اعطاہ اللہ کفلین من الاجر ،ثم توضأ ثلاثا ثلاثا ،فقال : ھذا وضوئی و وضوء المرسلین من قبلی ۔(ابن ماجة ،باب ما جاء فی الوضوء مرة و مرتین و ثلاثا،ص ٦١ ،نمبر ٤٢٠ دار قطنی ،باب وضوء رسول اللہ ۖ ،ج اول ص ٨٢ نمبر ٢٥٤ )۔
ترجمہ : ٢ جس نے اس سے زیادہ کیا یا کم کیا تو تعدی کیا اور ظلم کیا ۔اور وعید اس وقت ہے جب تین کو سنت نہ سمجھے ۔یہ عبارت دوسری حدیث کا ٹکڑا ہے ۔کہ جس نے تین مرتبہ سے کم وضوء کیا اس نے زیادتی کی اور ظلم کیا ،کیونکہ سنت کے خلاف کیا ۔اور جس نے تین مرتبہ سے زیادہ دھویا یہ سمجھتے ہوئے کہ تین مرتبہ سنت نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ مرتبہ سنت ہے ،تو یہ بھی زیادتی اور ظلم ہے، کیونکہ سنت تو تین مرتبہ ہی ہے ۔البتہ بھول میں کم بیش کردیا ،یا اطمینان قلب کے لئے کم بیش کر دیا تو ظلم اور زیادتی نہیں ہے۔حدیث یہ ہے ۔عن عمرو بن شعیب ،عن ابیہ ،عن جدہ قال : ان رجلا اتی النبی ۖ فقال : یا رسول اللہ