(باب المسح علی الخفین)
(١٠٩) المسح علی الخفین جائز بالسنة) ١ والاخبار فیہ مستفیضة حتی قیل ان من لم یرہ کان مبتدعا ً، لکن من رأہ ثم لم یمسح آخذا ً بالعزیمة کان ماجوراً (١١٠) و یجوزمن کل حدث موجب للوضوء اذا لبسھما علی طھارة کاملة ثم احدث)
(موزوں پر مسح کرنے کا بیان)
ضروری نوٹ: مسح : کے معنی ہیں تر ہاتھ کو عضو پر پھیرنا،یا کسی چیز پر پھیرنا ۔
دلیل عن ابی وقاص عن النبی ۖ انہ مسح علی الخفین۔ (بخاری شریف،باب المسح علی الخفین ص ٣٣ نمبر ٢٠٢ مسلم شریف ، باب المسح علی الخفین ، ص ١٣٢ ، نمبر ٢٧٤ ٦٢٦ ) اس حدیث میں ہے کہ آپ ۖ نے موزے پر مسح فرمایا ۔ مسح علی الخفین کا ثبوت حدیث متواتر سے ہے۔ البتہ اگر۔ وامسحوا برء وسکم وارجلکم الی الکعبین (آیت ٦ سورة المائدة٥) میں ارجلکم کو کسرہ پڑھیں تو امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس میں مسح علی الخفین کا جواز نکلتا ہے۔ورنہ اصل آیت میں تو پاؤں کے دھونے کا حکم ہے۔ چونکہ اس کا ثبوت حدیث سے ہے اس لئے مسح علی الخفین کے لئے بہت سے شرائط ہیں۔ مسح علی الخفین کی حدیث چالیس صحابہ سے منقول ہیں۔ اور بلا تاویل اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ صرف روافض اس کے خلاف ہیں۔
ترجمہ: (١٠٩) موزے پر مسح جائز ہے حدیث کی وجہ سے ۔
ترجمہ: ١ اور احادیث اس میں مشہور ہیں، یہاں تک کہا گیا ہے کہ جو موزے کے مسح کوجائز نہ سمجھے وہ بدعتی ہے ، لیکن جو اسکو جائز سمجھے پھر عزیمت پر عمل کر تے ہوئے مسح نہ کرے تو اسکو اجر و ثواب ملے گا ۔
تشریح : پہلے گزر چکا ہے کہ موزے پر مسح کرنے کا حکم آیت میں نہیں ہے ، اس میں تو پاؤں دھونے کا حکم ہے ۔ موزے پر مسح کرنے کا حکم احادیث میں ہے اور اتنے احادیث میں ہے کہ یہ سب مل کر متواتر کا درجہ ہو جا تا ہے ۔ اسلئے جو موزے کے مسح کا انکار کرے وہ اھل سنت و الجماعت میں سے نہیں ہے ۔ صرف شیعہ حضرات اسکا انکار کر تے ہیں ۔البتہ کوئی موزے کے مسح کو جائز سمجھے لیکن عزیمت پر عمل کر نے کے لئے موزے پر مسح نہ کرے تو اسکو ثواب ملے گا ۔ موزے پر مسح کے ثبوت کے لئے حدیث اوپر گزر چکی۔
ترجمہ: (١١٠) موزے پر مسح جائز ہے ہر وہ حدث سے جو وضو واجب کرنے والا ہو۔جب کہ موزے کو طہارت کاملہ پر پہنا ہوپھر حدث ہوا ہو۔
تشریح : جن حدث اکبر میں غسل کی ضرورت ہواس میں موزہ کھولنا ہوگا اور غسل کے ساتھ پاؤں دھونا ہوگا۔صرف حدث اصغر