(باب الحیض)
(١٣١) اقل الحیض ثلاثة ایام و لیالیھا، و ما نقص من ذالک فھو استحاضة ) ١ لقولہ علیہ السلام : اقل الحیض للجاریة البکر و الثیب ثلاثةایام و لیالیھا، و اکثرہ عشرة ایام، ٢ وھوحجة علی الشافعی فی التقدیر بیوم و لیلة
( حیض کا بیان)
ضروری نوٹ: حیض کے معنی بہنا ہے۔شریعت میں ایسی عورت جو نا بالغہ نہ ہو،آئسہ نہ ہو،جریان خون کا مرض نہ ہو اور حمل نہ ہو اس کے رحم سے خون نکلے تو اس کو حیض کہتے ہیں۔جس کو جریاں خون کا مرض ہو یا حاملہ ہو یا نا بالغہ ہو یا آئسہ ہو اس کے رحم سے جو خون نکلتا ہے وہ حیض نہیں ہوتا ہے بلکہ استحاضہ ہوتا ہے۔اس کی دلیل یہ آیت ہے ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولا تقربوھن حتی یطھرن ۔(آیت ٢٢٢ سورة البقرة ٢)
ترجمہ: (١٣١) حیض کی کم سے کم مدت تین دن تین راتیں ہیں تو جو اس سے کم ہو وہ حیض نہیں ہے وہ استحاضہ ہے ۔
تشریح : حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے اس سے کم آکر رک جائیے ، یا دس دن سے زیادہ آجائے تو وہ حیض نہیں ہے وہ استحاضہ کا خون ہے ۔اس پر حیض کے احکام جاری نہیں ہو نگے ۔
ترجمہ: ١ حضور ۖ کے قول کی وجہ سے کہ باکرہ اور ثیبہ لڑکیوں کے لئے حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور تین راتیں ، اور اسکی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے ۔
وجہ: (١) حدیث یہ ہے عن ابی امامة الباھلی قال قال رسول اللہ ۖ لایکون الحیض للجاریة والثیب الذی قد ایئست من الحیض اقل من ثلاثة ایام ولا اکثر من عشرة ایام فاذا رأت الدم فوق عشرة ایام فھی مستحاضة فمازاد علی ایام اقرائھا قضت ودم الحیض اسود خائر تعلوہ حمرة ودم المستحاضة اصفر رقیق (دار قطنی ، نمبر ٨٣٤) ( ٢)عن واثلة بن الاسقع قال قال رسول اللہ ۖ اقل الحیض ثلاثة ایام و اکثرہ عشرة ایام ۔(دار قطنی، کتاب الحیض ، ج اول ،ص ٢٢٥ ٨٣٦)دار قطنی میں اس قسم کی کئی احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہیں۔ اور اس سے کم یا زیادہ ہو تو وہ استحاضة ہے ۔
ترجمہ: ٢ اور یہ حدیث حجت ہے امام شافعی پر ایک دن اور ایک رات کے متعین کرنے میں ۔
تشریح : امام شافعی نے حیض کی کم سے کم مدت ایک دن ایک رات متعین کی ہے انکے خلاف اوپر کی حدیث حجت ہوگی ، انکی دلیل یہ قول ہے عن عطاء قال اکثر الحیض خمسة عشرة وقال ادنی الحیض یوم ۔(دار قطنی ،کتاب الحیض ص ٢١٦