(١٢) و تخلیل الاصابع ) ١ لقولہ علیہ السلام: خللوا اصابعکم کی لا تخللھا نار جھنم ٢ ولانہ اکمال الفرض فی محلہ۔ (١٣) و تکرار الغسل الی الثلٰث )
تکمیل کی بھی ضرورت نہیں ہے اسلئے وہاں خلال کرنا سنت بھی نہیں ہوگا ۔البتہ حدیث کی بناء پر صرف جائز ہوگا ۔ اصل وجہ وہی ہے کہ جائز ہونے کے لئے اثر ہے ۔
نوٹ: ہلکی ڈاڑھی ہو تو پانی کھال تک پہنچانا ضروری ہے۔ اور گھنی ڈاڑھی ہو تو ڈاڑھی کے اوپر دھو لے اور ڈاڑھی کے اندر خلال کرنا اس وقت سنت ہے۔
وجہ : اس اثر سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔عن عبد الرحمن بن ابی لیلی قال : ان استطعت ان تبلغ بالماء اصول اللحیة فافعل۔ (مصنف ابن ابی شیبة ،١١ فی غسل اللحیة فی الوضوئ،ج اول ص ٢٢ ،نمبر ١٢٧ ) اس اثر میں ہے کہ ڈاڑھی ہلکی ہو اور بال کی جڑ تک پانی پہونچا سکتے ہو تو وہاں تک پانی پہونچاو ۔
ترجمہ :(١٢) ]آٹھویں سنت[انگلیوں کاخلال کرنا ہے ۔
وجہ :(١) صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔عن ابن عباس ان رسول اللہ ۖ قال اذا توضأت فخلل اصابع یدیک و رجلیک (ترمذی شریف ، باب تخلیل الاصابع ص ١٦ نمبر ٣٩ نسائی شریف ، باب الامر بتخلیل الاصابع ،ص ١٦نمبر ١١٤)(٢)انگلی کے خلال کرنے میں حکمت یہ ہے کہ پانی ہر جگہ پہنچ جائے ۔کیونکہ اعضاء وضو میں ایک بال کے برابر بھی خشک رہ جائے تو وضو نہیں ہوگا۔
ترجمہ : ١ آپ ۖ کے قول کی وجہ سے ۔کہ اپنی انگلیوں کا خلال کرو تاکہ جہنم کی آگ اسکے بیچ میں نہ جائے ۔یہ عبارت حضرت حذیفة ، حضرت عبد اللہ اور حضرت ابو بکر کا اثر ہے جو ممکن ہے کہ حضور سے سنے ہوں اسلئے صاحب ھدایة نے لقولہ السلام کہہ دیا ۔اثر یہ ہے ۔ان ابا بکر الصدیق قال: لتخللن اصابعکم بالماء او لیخللنھا اللہ بالنار ۔(مصنف ابن ابی شیبة ،٨ فی تخلیل الاصابع فی الوضوء ،ج اول ص ٢٠ نمبر ٩٦ ٨٧ )اس اثر میں ہے کہ انگلیوں کا خلال نہیں کروگے تو اللہ آگ اسکے درمیان ڈالین گے ۔اصل تو اوپر والی حدیث تر مذی و نسائی ہے جسکی بناء پر انگلیوں کا خلال سنت ہے۔
ترجمہ : ٢ اور اسلئے کہ یہ خلال فرض کو پورا کرنے کے لئے فرض کی جگہ میں ۔اسلئے یہ سنت ہوگا ۔
تشریح :اوپر قاعدہ گزر چکا ہے کہ جہاں دھونا فرض ہے اسکی تکمیل کے لئے خلال کرنا سنت ہے ۔یہاں انگلیوں کا دھونا فرض ہے اسلئے اسکی تکمیل کے لئے خلال سنت ہو گی ۔اسی کو مصنف نے کہا کہ فرض کا اکمال اسکے محل میں ہے ۔
ترجمہ : (١٣) ]نویں سنت[ تین مرتبہ دھونے کا تکرار کرنا ہے ۔