١ ہذا ہو المتوارث (٣١٤) وان کان منفردا فہو مخیران شاء جہرواسمع نفسہ ) ١ لانہ امام فی حق نفسہ وان شاء خافت لانہ لیس خلفہ من یسمعہ
العشاء فی احدی الرکعتین بالتین والزیتون ۔(بخاری شریف ، باب الجھر فی العشاء ص ١٠٥ نمبر ٧٦٧ مسلم شریف ، باب القراء ة فی العشاء ص ١٨٧ نمبر ٤٦٤ ) یہاں بھی سمعت کے لفظ سے معلوم ہوا کہ آپ نے عشا کی نماز میں قرأت جہری کی ہے۔
(١)عشا کی دوسری دو رکعتوں میں جہری قرأت نہ کرنے کی دلیل یہ حدیث ہے قال عمر لسعد شکوک فی کل شیء حتی الصلوة قال اما انا فامد فی الاولیین واحذف فی الآخریین۔ (بخاری شریف، باب یطول فی الاولیین ویحذف فی الاخریین ص ١٠٦ نمبر ٧٧٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسری دو رکعتوں میں قرأت نہ کرتے تھے یا آہستہ کرتے تھے ۔کیونکہ حذف کے ایک ہی معنی ہے قرأت چھوڑ دینا ۔ اس لئے قرأت ہی نہیں کرتے تھے یا آہستہ کرتے تھے۔اسی پرمغرب کی تیسری رکعت کو قیاس کرنا چاہئے۔اور اس میں بھی یا قرأت نہیں ہے جیسا کہ پہلے گزرا یا قرأت آہستہ کرتے تھے۔
ترجمہ: ١ یہی متوارث ہے۔یعنی یہی حضور پاکۖ اور صحابہ اور تابعین کے زمانے سے منقول ہوتا چلا آیا ہے۔
ترجمہ: (٣١٤) اور اگر تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو اختیار ہے اگر چاہے تو زور سے پڑھے اور اپنے آپ کو سنائے کیونکہ وہ اپنے نفس کے حق میں امام ہے اور اگر چاہے تو آہستہ پڑھے ۔
ترجمہ: ١ اسلئے کہ اسکے پیچھے کوئی نہیں ہے جسکو وہ سنائے گا ۔
تشریح: اگر تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو وہ اپنے لئے امام بھی ہے اس لئے جہری نماز میں زور سے پڑھ سکتا ہے اور اپنے آپ کو سنا سکتا ہے ۔لیکن اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے جس کو سنائے اس لئے وہ آہستہ بھی پڑھ سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تھوڑا زور سے پڑھے تاکہ ہیئت جماعت پر نماز ادا ہو جائے ۔
وجہ: (١) قلت لعطا ء : ما یجھر بہ الصوت من القرأة من صلاة اللیل و النھار من المکتوبة ؟ قال : الصبح و الاولیین العشاء ، و الاولیین المغرب ، و الجمعة اذا کانت فی جماعة ، فاما اذا کان المرأ وحدہ فلا ۔ ( مصنف عبد الرزاق ، باب ما یجھر من القرأة فیہ من الصلوة ، ج ثانی ، ص ١٠٠ ، نمبر ٢٦٥٥ ) اس اثر میں ہے کہ آدمی جماعت کے ساتھ ہو تو جہر کرے اور تنہا ہو تو ضروری نہیںہے اور زور سے پڑھے اور اپنے آپ کو سنائے (٢)اس کی دلیل یہ اثر بھی ہے عن نافع ان عبد اللہ بن عمر کان اذا فاتہ شیء من الصلوة مع الامام فیما جھر فیہ الامام بالقراء ة انہ اذا سلم الامام قام عبد اللہ فقرء لنفسہ فیما یقضی و جھر (مؤطا امام مالک ، باب العمل فی القراء ة ص ٦٤) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جہری نماز اکیلے پڑھتا ہو تو زور سے قرأت پڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ عبد اللہ بن عمر زور سے پڑھتے تھے ۔