Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 1

497 - 627
  ١ ہذا ہو المتوارث (٣١٤)  وان کان منفردا فہو مخیران شاء جہرواسمع نفسہ ) ١ لانہ امام فی حق نفسہ وان شاء خافت لانہ لیس خلفہ من یسمعہ 

العشاء فی احدی الرکعتین بالتین والزیتون ۔(بخاری شریف ، باب الجھر فی العشاء ص ١٠٥ نمبر ٧٦٧  مسلم شریف ، باب القراء ة فی العشاء ص ١٨٧ نمبر ٤٦٤ ) یہاں بھی سمعت کے لفظ سے معلوم ہوا کہ آپ نے عشا کی نماز میں قرأت جہری کی ہے۔
(١)عشا کی دوسری دو رکعتوں میں جہری قرأت نہ کرنے کی دلیل یہ حدیث ہے  قال عمر لسعد شکوک فی کل شیء حتی الصلوة قال اما انا فامد  فی الاولیین واحذف فی الآخریین۔ (بخاری شریف، باب یطول فی الاولیین ویحذف فی الاخریین ص ١٠٦ نمبر ٧٧٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسری دو رکعتوں میں قرأت نہ کرتے تھے یا آہستہ کرتے تھے ۔کیونکہ حذف کے ایک ہی معنی ہے قرأت چھوڑ دینا ۔ اس لئے قرأت ہی نہیں کرتے تھے یا آہستہ کرتے تھے۔اسی پرمغرب کی تیسری رکعت کو قیاس کرنا چاہئے۔اور اس میں بھی یا قرأت نہیں ہے جیسا کہ پہلے گزرا یا قرأت آہستہ کرتے تھے۔ 
ترجمہ:    ١    یہی متوارث ہے۔یعنی یہی حضور پاکۖ اور صحابہ  اور تابعین کے زمانے سے منقول ہوتا چلا آیا ہے۔
ترجمہ:   (٣١٤)  اور اگر تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو اختیار ہے اگر چاہے تو زور سے پڑھے اور اپنے آپ کو سنائے  کیونکہ وہ اپنے نفس کے حق میں  امام ہے  اور اگر چاہے تو آہستہ پڑھے ۔
ترجمہ:   ١   اسلئے کہ اسکے پیچھے کوئی نہیں ہے جسکو وہ سنائے گا ۔
تشریح:   اگر تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو وہ اپنے لئے امام بھی ہے اس لئے جہری نماز میں زور سے پڑھ سکتا ہے اور اپنے آپ کو سنا سکتا ہے ۔لیکن اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے جس کو سنائے اس لئے وہ آہستہ بھی پڑھ سکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تھوڑا زور سے پڑھے تاکہ ہیئت جماعت پر نماز ادا ہو جائے  ۔
 وجہ:   (١)  قلت لعطا ء : ما یجھر بہ الصوت من القرأة من صلاة اللیل و النھار من المکتوبة ؟ قال : الصبح و الاولیین  العشاء ، و الاولیین المغرب ، و الجمعة اذا کانت فی جماعة ، فاما اذا کان المرأ وحدہ فلا ۔ ( مصنف عبد الرزاق ، باب ما یجھر من القرأة فیہ من الصلوة ، ج ثانی ، ص ١٠٠ ، نمبر ٢٦٥٥ ) اس اثر میں ہے کہ آدمی جماعت کے ساتھ ہو تو جہر کرے اور تنہا ہو تو ضروری نہیںہے اور زور سے پڑھے اور اپنے آپ کو سنائے (٢)اس کی دلیل یہ اثر بھی ہے  عن نافع ان عبد اللہ بن عمر کان اذا فاتہ شیء من الصلوة مع الامام فیما جھر فیہ الامام بالقراء ة انہ اذا سلم الامام قام عبد اللہ فقرء لنفسہ فیما یقضی و جھر  (مؤطا امام مالک ، باب العمل فی القراء ة ص ٦٤) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جہری نماز اکیلے پڑھتا ہو تو زور سے قرأت پڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ عبد اللہ بن عمر زور سے پڑھتے تھے ۔
 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 5 0
2 کتاب الطھارات 52 1
3 سنن الطھارة 62 2
4 مستحبات وضو کا بیان 71 3
5 نواقض وضو کا بیان 79 11
6 فصل فی الغسل 102 2
7 غسل کے فرائض کا بیان 102 6
8 غسل واجب ہونے کے اسباب 107 6
9 سنت غسل کا بیان 112 6
11 فصل فی نواقض الوضوئ 79 3
12 باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء و ما لا یجوز بہ 117 2
13 پانی کے احکام 117 12
14 بڑے تالاب کا حساب ایک نظر میں 130 13
15 گول چیز ناپنے کافارمولہ 132 13
17 فصل فی البیر 155 12
18 کنویں کے مسائل 155 17
19 فصل فی الآسار 171 12
20 فصل جوٹھے اور اسکے علاوہ کے بارے میں 171 19
21 باب التیمم 193 2
23 باب المسح علی الخفین 227 2
24 باب الحیض و الاستحاضة 251 2
25 حیض کا بیان 251 24
26 فصل فی المستحاضة 270 24
27 فصل فی النفاس 276 24
28 نفاس کا بیان 276 27
29 باب الانجاس وتطھیرھا 283 2
30 نجاست ، اور اسکے پاک کرنے کا با ب 283 29
31 ہر ایک کے ناپاک ہو نے کی دلیل 297 29
33 درھم کی قسمیں تین ہیں 300 29
34 درھم کا حساب 300 29
36 فصل فی الاستنجاء 320 2
37 استنجاء کا بیان 320 36
38 کتاب الصلوة 329 1
39 باب المواقیت 329 38
40 فصل اوقات مستحب 342 39
41 فصل فی الاوقات التی تکرہ فیھا الصلوة 351 39
42 باب الاذان 362 38
43 باب شروط الصَّلٰوة التی تتقدمہا 385 38
44 باب صفة الصلوة 413 38
45 فصل فی القراء ة 496 44
46 باب الامامة 523 38
47 جماعت کا بیان 523 46
49 باب الحدث فی الصلوة 569 38
50 باب مایفسد الصلوٰة وما یکرہ فیہا 601 38
Flag Counter