تشریح : اوپر حضرت عبد اللہ ابن مسعود کی حدیث گزری تھی جس میں تھا کہ تشہد کی مقدار بیٹھ لو یا تشھد کہہ لو تو نماز پوری ہو جائے گی اسکے بعد چاہو تو بیٹھو ، اور چاہو تو کھڑے ہو جائو ۔ جس سے معلوم ہوا کہ تشھد کی مقدار بیٹھنے سے یا تشھد کہنے سے نماز پوری ہو گئی اسلئے اب کوئی فرض باقی نہیں رہا ، اسلئے امام شافعی کی پیش کردہ حد یث٫ تحریمھا التکبیر و تحلیلھا التسلیم ، سے ہم فرضیت ثابت نہیںکر سکتے ، پھر بھی چونکہ حدیث پیش کی ہے اسلئے احتیاط کے لئے اس سے واجب ثابت کر تے ہیں ۔
و جہ : صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے (١) ۔ وان رسول اللہ ۖ اخذ بید عبد اللہ بن مسعود فعلمہ التشھد فی الصلوة فذکر مثل دعاء حدیث الاعمش اذا قلت ھذا اوقضیت ھذا فقد قضیت صلوتک ان شئت ان تقوم فقم وان شئت ان تقعد فاقعد ۔(ابو داؤد شریف ، باب التشہد ص ١٤٦ نمبر ٩٧٠ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی وصف الصلوة ص ٦٦ نمبر ٣٠٢)تشہد کی مقدار بیٹھ گیا تو نماز پوری ہو گئی ۔اس سے معلوم ہوا کہ آگے سلام فرض نہیں ہے۔ (٢) اسی طرح طحاوی میں ہے عن عمر بن العاص ان رسول اللہ ۖ قال اذا قضی الامام الصلوة فقعد فاحدث ھو واحد ممن اتم الصلوة معہ قبل ان یسلم الامام فقدتمت صلاتہ فلایعود فیھا (طحاوی شریف ، باب السلام فی الصلوة ھل ھو من فروضھا او من سننھا ص ١٩٤سنن للبیھقی ،باب تحلیل الصلوة بالتسلیم ج ثانی ص ٢٥٠، نمبر ٢٩٧٠)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قعدۂ اخیرہ میں بیٹھ گیا اور حدث ہو گیا تو نماز پوری ہو گئی۔چاہے سلام کرے یا نہ کرے تو معلوم ہوا کہ سلام کرنا فرض نہیں ہے۔ اگر سلام کرنا فرض ہوتا تو اس کی نماز پوری کیسے ہوتی ۔(٣) عن ابن عمر ان رسول اللہ ۖ قال اذا قضی الامام الصلوة وقعد فاحدث قبل ان یتکلم فقد تمت صلوتہ ومن کان خلفہ ممن اتم الصلوة (ابو داؤد شریف ، باب الامام یحدث بعد ما یرفع رأسہ ص ٩٨ نمبر ٦١٧) اس سے معلوم ہوا کہ سلام فرض نہیں ہے ورنہ حدث سے نماز کیسے پوری ہو جاتی!۔ البتہ حدیث کی بنا پر احتیاط کے طور پر ہم سلام کہہ کر نماز سے نکلنا واجب کہتے ہیں ..........واللہ اعلم