الملائکة عددامحصورالان الاخبارفي عددہم قد اختلف فاشبہ الايمان بالانبياء عليہم السلام
2 ثم اصابة لفظة السلام واجبة عندنا وليس بفرض خلافا للشافعي ہويتمسک بقولہ عليہ السلام تحريمہا التکبير وتحليلہا التسليم3 ولناماروينا من حديث ابن مسعود التخيير ينا في الفرضية والوجوب الا انا اثبتنا الوجوب بمارواہ احتياطا وبمثلہ لايثبت الفرضية واللّ?ہ اعلم
پر ایمان کے مشابہ ہو گیا ۔
تشریح : ایک آدمی کے ساتھ کتنے فرشتے ہو تے ہیں اس بارے میںاحادیث مختلف ہیں اسلئے کسی خاص تعداد کی نیت نہ کرے بلکہ سب فرشتوں کی نیت کر لے تاکہ جتنے بھی ہوں سب کی نیت ہو جائے ۔ جیسے انبیاء علیھم السلام کی متعین تعداد معلوم نہیں اسلئے سب پر ایمان رکھنا ضروری ہے اسی طرح یہاں بھی سب کی نیت کر لیں ۔
ترجمہ: ٢ پھر خاص لفظ سلام کا کہنا ہمارے نزدیک واجب ہے ، اور فرض نہیں ہے خلاف امام شافعی کے ، وہ حضور علیہ السلام کے قول سے دلیل پکڑتے ہیں ،کہ نماز کا تحریمہ تکبیر سے ہو تا ہے اور اسکا اختتام سلام سے ہو تا ہے ۔
تشریح : امام ابو حنیفہ کے نزدیک خروج بصنعہ ،( یعنی کوئی بھی حرکت کر کے نماز کو پوری کر نا فرض ہے )البتہ لفظ سلام کر کے نکلنافرض نہیں واجب ہے ۔
فائدہ : امام شافعی کے نزدیک آگے والی حدیث کی وجہ سے لفظ سلام کر کے نماز سے نکلنا فرض ہے ۔ موسوعة میں عبارت یہ ہے ۔ و اقل ما یکفیہ من تسلیمہ أن یقول : السلام علیکم ، فان نقص من ھذا حرفا ، عاد فسلم ، و ان لم یفعل حتی قام ، عاد فسجد للسھو ثم سلم ۔ ( موسوعة امام شافعی ، باب السلام فی الصلوة ، ج ثانی ، ص ٢٠٤، نمبر ١٤٨٥) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ انکے یہاں لفظ سلام سے نکلنا فرض ہے ۔
وجہ: (١) انکی دلیل وہ تمام احادیث ہیں جن میں سلام کر کے نماز پوری کی ہے ۔ (٢) صاحب ھدایہ کی پیش کردہ یہ حدیث بھی ہے ۔ عن ابی سعید قال قال رسول اللہ ۖ مفتاح الصلوة الطہور وتحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلیم ۔ ( ترمذی شریف، باب ما جاء فی تحریم الصلوة وتحلیلھا ص ٥٥ نمبر ٢٣٨ ابو داؤد شریف نمبر ٦١٨) اس حدیث میں ہے کہ سلام کر کے آدمی نماز سے نکلے گا ۔
ترجمہ: ٣ اور ہماری دلیل جو ہمنے روایت کی عبد اللہ ابن مسعود کی حدیث ، جس میں اختیار دیا تھا ، اور اختیار دینا فرض ہو نے اور واجب ہو نے کے منافی ہے ، پھر بھی ہمنے اس روایت کی وجہ سے احتیاط کے طور پر وجوب ثابت کیا ، اور اس قسم کی حدیث سے فرض ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔